Thursday, December 31, 2020

 ایم کیو ایم ۔۔۔ایک فینٹسی!

ڈاکٹر نادیہ خان

آپ مانیں یا نہ مانیں۔۔۔بعض مہاجر طبقات کےلئے ایم کیو ایم کا وجود ....ماضی کا ایک حسین خواب ہے۔ وہ نسل جس نے الطاف حسین کا عروج‘ایم کیو ایم کو بنتے بڑھتے ‘طاقت میں آتے اور اقتدار کے مزے اڑاتے دیکھا ۔۔۔ یہ جماعت یا اسکا تصور انکے لئے ایک فینٹسی یا ڈریم گرل بن چکا ہے۔ایم کیو ایم کی تشکیل کا کوئی مقصد پورا ہواہو یا نہیں‘مہاجروں کو اس جماعت کی تشکیل سے کوئی فائدہ ہو ایا نہیں مگر کم و بیش تیس پینتیس سال تک کراچی اور ملکی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے بعد۔۔۔الطاف حسین اور انکی ایم کیو ایم نے مہاجروں کو ایک شناخت دی ہے!

بحثیت جدید سندھی (کراچی کا شہری ڈومیسائل رکھنا اور سول سروس میں امتیازی سلوک) ہونے یا کوٹا سسٹم کا خاتمہ یا بنگلہ دیش سے بہاریوں کی واپسی ۔۔۔۔یہ سب باتیں تو پیچھے رہ گئیںلیکن آپ مہاجروں کو شناخت دینے کو ہی ا یم کیو ایم کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھ لیں۔اگر صرف یہی حوالہ سامنے رکھیں تو کئی سوال تین دھائیاں گزرنے کے باوجود ہنوز جواب طلب ہیں!

کیا کراچی مسئلہ۔۔۔ پاکستان کے دیگر مسائل سے زیادہ بڑا ہے؟

ہم ہر سال سولہ دسمبر کو.... سقوط ڈھاکہ اور اے پی ایس کے ڈیڑھ سو معصوم بچوں کے قتل.... کو روتے ہیں لیکن خیال نہیں کرتے ۔۔۔کراچی میں مہاجروں کے خلاف آپریشن‘ ایم کیو ایم کی تقسیم ‘ انکی باہمی لڑائیاں اور قتل و غارتگری یاملک میں لاتعداد مسنگ پرسنزبالخصوص بلوچستان میں مسلسل بلوچوں کا اغواءاور انکی مسخ شدہ لاشوں کا ملنا بھی اس سے کہیں بڑھ کر اہمیت کے حامل واقعات ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے باہمی گروپوں کی لڑائیوں‘ نصیر اللہ بابر کے دور میں ایم کیو ایم کارکنوں کے ماوراءعدالت قتل (گاڑیوں میں بھر بھر کے فائرنگ کرکے اڑا دینا) یا ایجنسیوں کے تشدد کے سبب ۔۔۔کم و بیش 16 ہزار مہاجر نوجوان 1992 تا 2018 تک اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔کچھ جیل گئے کچھ کو عدالتوں سے سزا بھی ہوئی اور وہ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے جیسے صولت مرزا وغیرہ‘ کچھ ایسے خوش قسمت بھی تھے جو مشرف کے این آر او سے مستفید ہو کر دوبارہ پارٹی کےلئے کام کرنے لگے اور پھر کام آئے۔

اس سب کے بعد آج اہل کراچی یا ایم کیو ایم(پاکستان) کی نئی قیادت کو مسئلہ یہ درپیش ہے ۔۔۔مردم شماری میں کراچی کی آبادی کا صحیح طور پر تعین نہیں کیا گیا ہے۔حوالہ یہ دیا جارہا ہے....مردم شماری میں کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ بتائی گئی ہے جبکہ کسی مقدمے میں چیف جسٹس صاحب نے فرمایا تھا۔۔کراچی کی آبادی تین کروڑ ہےد اس سے کیا حاصل ہو سکتا ہے‘ اسکی تفصیل بھی کڑوی ہے مثلاً زیادہ آبادب تو قومی و صوبائب اسمبلیوں میں زیادہ نمائندگی‘ زیادہ سیٹیں‘ وفاقی حکومت سے زیادہ مول تول....زیادہ فوائد۔لیکن سوچنا یہ چاہیے جو جماعت ہر حکومت میں وزارت لے پھر کہے مردم شماری ٹھیک نہیں ہوئی۔۔اب اسے کیا کہا جاسکتا ہے اور اس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے!

ایم کیو ایم نے مہاجر کاز کو کتنا نقصان پہنچایا؟

ایم کیو ایم کے کراچی میں سیاسی مخالفین کہتے ہیں۔۔۔”ایم کیو ایم (الطاف‘ لندن‘ پاکستان یا پی آئی بی اور بہادر آباد گروپس ) کوئی سی کیوں نہ ہو جتنا نقصان ان سب نے اپنے ووٹرز کو پہنچایا شاید ہی کسی سیاسی جماعت نے ایسا ظلم مہاجروں پر کیا ہو۔جو انجام ان کا اسٹیبلشمنٹ نے کیا ہے اسے اللہ کی پھٹکار ہی کہا جا سکتا ہے۔“ اس کے صحیح یا علط ہونے کا فیصلہ تو کہاجر عوام کرینگے مگرپینتس سالوں میں سے بتیس سال حکومت میں رہ کر بھی اگر کوئی سیاسی جماعت یہ کہے وہ اپنے ووٹروں کی حالت زار ٹھیک نہ کر سکی یا اسکے شہر (کراچی و حیدرآباد) کے حالات خراب سے خراب ترہوتے گئے۔۔۔۔ایسی جماعت کو کیا کہا جاسکتا ہے‘ اسکے لئے کسی راکٹ سائنس کو پڑھنے کی ضرورت نہیں۔

غور کریں تو ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی تشکیل میں بہت مماثلت ہے‘ دونوں مڈل کلاس افراد کی تنظیم کے طور پر سامنے آئیں اور دونوں کی اٹھان میں وردی کی قوت نے بڑا کردار ادا کیا‘ کہیں ایسا نہ ہو دونوں کا انجام بھی ایک جیسا ہو !

ایم کیو ایم نے جو نظریاتی کارکن تیار کیے وہ کیسے پورس کے ہاتھی نکلے؟

مثال کے طور پر عامر لیاقت کو لے لیں‘ وہ اپنے تمام تر مہاجر نظریات یا الطاف دوستی کے باوجود پورس کے ہاتھی نظر آئے۔ بس یوں سمجھ لیں۔۔۔بوقت ضرورت آقا بدل لینا۔۔۔ ہمارے عہد کے سیاسی کارکنوں بالخصوص مذہبی اسکالروں کی ۔۔۔مذہبیت‘ معاشرت اور سیاست ہے!

دیگر مہاجر کارکنان نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب اشنان کیا‘ جو کبھی فٹ پاتھوں کی خاک چھانا کرتے تھے وہ ڈیفنس کلفٹن جیسے کراچی کے پوش علاقوں میں محلوں میں رہنے لگے۔بابر غوری کلرک سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون بن گئے‘ عامر خان گجر نالے کے ایک کمرے کے گھر سے نکل کر اربوں میں کھیلنے لگے‘ عشرت العباد اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے دبئی میں امیر کبیرمستقل شہری بن گئے‘ خالد مقبول صدیقی جو کبھی کسی وڈیرے یا چودھری کو پجارو میں دیکھ کر حسرت آمیز گالیاں بکا کرتے تھے خود کئی لینڈ کروزرز کے مالک بن گئے لیکن لیاقت آباد(جسے پرانے دور میں لالو کھیت کہا جاتا تھا) نیو کراچی‘ سرجانی‘ برنس روڈ‘ ناظم آباد‘ دستگیر وغیرہ اور دیگر علاقوں کے مہاجر۔۔۔سب کچھ گنوا کر مزید غریب ہو گئے یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھے!

الطاف حسین اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کا انجام کیا ہو گا؟

جنرل مشرف کے این آر او کے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والے ....اسی جماعت کے کارکنان تھے لیکن انکے جانے کے بعد الطاف حسین کے تعلقات اسٹیبلشمنٹ سے بگڑتے چلے گئے اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ الطاف بھائی جو لندن سے تقریریں کرکے اپنا حلقہ سیاست قابو میں رکھا کرتے تھے اس پر پابندی لگ گئی۔۔الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک بوگس پٹیشن پر لگی‘ دوسری مہر لاہور ہائی کورٹ نے بھی لگا دی.... اسے ختم ہونا چاہیے لیکن الطاف حسین کو بھی جرنیلوں سے اختلاف کو ....پاکستان مخالفت میں نہیںبدلنا چاہیے۔یہ اپنے اسلاف سے بیوفائی ہے۔ قائد اعظم‘ فاطمہ جناح ‘ علامہ شبیر احمد عثمانی‘ مولانا مودودی‘ علامہ سید سلیمان ندوی‘ مولاناظفراحمد انصاری‘ حکیم محمد سعیداورستار ایدھی۔۔ سب مہاجر ہی تھے!

اصولاً الطاف حسین کی تقاریر اور انکی سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی نہیں لگنی چاہیے کیونکہ یہ انکا آئینی حق ہے جس سے انہیں محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے ملتی جلتی صورتحال سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھی درپیش ہے لیکن دونوں کی سوچ اور تقریروں میں بڑا فرق ہے۔جب تک دوستی یا مفاد ہے الطاف بھائی جرنیلوں کے حق میں ریلیاںنکلواتے اور اختلاف پر پاکستان مخالف ہو جاتے ہیں جبکہ میاں صاحب صرف اُن جرنیلوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو اپنے فوجی حلف سے غداری کے مرتکب ہو ئے ہیں۔

سن 2021ءمیں کراچی اور اہل کراچی سے وفاق یا سندھ کی صوبائی حکومت کا رویہ کیسا ہو گا؟

ایک طویل عرصے سے کراچی میں رینجرز کی موجودگی معمہ ہے‘ سیاسی مصلحتوں کے تحت کبھی وہ غیر متحر ک ہو جاتے ہیں تو کبھی حد درجے متحرک۔پھر سندھ میں طویل عرصے سے پی پی پی کی صوبائی حکومت کراچی سے لا تعلقی کا اظہار عملاً کرتی رہی ہے جس کے سبب شہر کا انفرا اسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔سڑکیں ندارد تو پانی گیس عنقا۔۔۔امن و امان اور سیاسی پولیس شہریوں کے لئے وبال جان ہے۔ اس سب کے بعد مہنگائی اور دوسرے شہروں سے مسلسل آمد نے جہاں شہر کو منی پاکستان بنا دیا ہے وہیں وسائل کی شدید کمی بھی سامنے ہے مگر صوبائی حکومتیں اس پر غور کرنے کو تیار نہیں۔ایسے ماحول میں ہلکی سی چنگاری۔۔۔کراچی کے بارود کے ڈھیر کے لئے بہت کافی ہو گی!