Saturday, November 21, 2020

 خادم رضوی۔۔۔عاشق رسول ﷺ یا متشدد بریلوی!

ڈاکٹر نادیہ خان

خادم رضوی۔۔۔ اللہ کے حضور پہنچ گئے لیکن انکی” تحریک ِلبیک “اور فکر کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔گالی گفتار‘ دھمکیاں اور بدزبانی انکا خاصہ تھی‘بنیادی طور پر وہ متشدد بریلوی تھے اور اپنی فکر کو سب سے زیادہ صحیح اور ہر دوسرے فرقے کو غلط سمجھتے تھے۔

سب خادم رضوی کی مغفرت کی دعائیں کر رہے ہیں‘ درست‘ آج اسی چیز کی انکو سخت ضرورت بھی ہو گی مگرمغفرت کرنا۔۔ اللہ تعالی کے ہاتھ ہے جسے چاہے بخش دے البتہ ہمارے عہد میں خادم رضوی وہ پہلے شخص تھے جس نے اسلام کے ڈیڑھ ہزار سال پرانے نعرے ....اللہ اکبر....کو ثانوی حیثیت دیکر نئے نعرے ۔۔لبیک یا رسول اللہ۔۔۔ کوفروغ دیا۔عموماً صحابہ کرامؓ جب کوئی بڑا واقعہ ہوتا تو ....اللہ اکبر کی صدا  بلند کیا کرتے تھے۔ خصوصاً جب عمر بن خطاب ایمان لائے تب بھی سب صحابہ ؓنے یہی اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا لیکن خادم رضوی نے اس نعرہ کی اہمیت کم کردی اور اسکی جگہ ایک نیا نعرہ....لبیک یا رسول اللہ.... متعارف کروایا اور نماز جبسی اہم ترین عبادت کی اہمیت کم کرکے ”ختم نبوت چوکیداری“ کو نماز سے بڑی عبادت قرار دیا۔


خادم رضوی نے لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے لئے نت نئے جھوٹ تراشے مثلاً ممتاز قادری پھانسی کے بعد ایمبولینس میں دوبارہ زندہ ہو کر بیٹھ گیا اور پولیس والوں کو دیکھ کر دوبارہ لیٹ گیا تھا۔ پھر ختم نبوت کی پہرےداری جیسی اصطلاحات متعارف کروائیں ۔سوچنے کی بات یہ ہے جب قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا تو صاحب قرآن کی آبرو ‘ نبوت یا ختم نبوت کی حفاظت بھی اُسی اللہ کے ذمہ ہے۔جہاں مومنانہ فراست کی ضرورت تھی وہیں احمقانہ جذباتیت( مثلاً سرکاری املاک کو نقصان پہچانا‘ پولیس والوں سے دُو بدو جنگ اور سرکاری ملازمین اور اپنے کارکنوں کو اس میں جھونکنا‘ جڑواں شہروں کو بلاک کرکے عوام کو مشکلات سے دوچار کرنا....)سے کام لیا۔

جس ستار ایدھی کو ناجائز بچے پالنے کا طعنہ دیتے رہے بالآخر انکی میت اُسی ایدھی ایمبولینس میں گھر روانہ کی گئی۔کہنے کو تو انکے چاہنے والے انکی موت کا سبب۔۔۔کرونا۔۔کو بتلا رہے ہیں مگرجن گمنام لوگوں کی ایما پر وہ ملک  میں مذہبی انتشار برپا کرتے رہے گمان غالب ہے انکی محبتوں یا نفرتوں کا نشانہ بن گئے ہیں۔اب انکا بڑا مزار بنے گا اور لوگ چڑھاوے چڑھائیں گے سالانہ عرس ہو گا‘ قصیدہ خوانی ہوگی اور کچھ سالوں میں حضرت پیر پیمبر کے رتبے پر فائز کئے جاینگے۔!

اب اس لبیک یا رسول اللہ کے نعرے کو بھی سمجھ لیں۔بنیادی طور پر مسلمان صدیوں سے حج کے موقع پر ۔۔لبیک لا شریک لک لبیک کی تلبیہ پڑھتے ہیں‘ یعنی اے اللہ میں حاضر ہوں‘گویا خدا کے حضور اپنی سپردگی کو ظاہر کرتے ہیں۔خادم رضوی نے نبی سے محبت جیسے نازک موضوع کو لیکر ایک نیا نعرہ تخلیق کیا۔۔۔لبیک یا رسول اللہ۔۔۔اس میں حُبِّ نبی سے زیادہ بریلویت کا اہم جز۔۔۔یا رسول اللہ کا عقیدہ شامل ہے۔ یاد رہے متشدد بریلوی۔۔۔رسول اللہ ﷺ کو اللہ کی طرح حاضر و ناظر مانتے ہیں اور اسی سبب ....یا رسول اللہ ....کہتے ہیں!

 خادم رضوی ایک بد زبان اور دوسرے کی عزت نہ کرنے والی شخصیت بھی تھے۔ لوگوں کو ابھی تک ٹی وی مباحثے میں انکی مغروریت اور بدتمیزی کے ساتھ صدیق الفاروق کے ساتھ جاہلانہ گفتگو یاد ہے۔موت کے بعد خادم رضوی کی مدد کو مفتی منیب الرحمن بھی میدان میں نکل آئے ہیں۔غور کریں سیدنا امام حسین ؓ اور یزید کے مابین سخت اختلاف تھا مگر انکی سیرت میں کہیں نہیں ملتا خلافت کے احیاء(اگر خادم رضوی کی اصطلاح میں کہیں تو ۔۔نگہبانی) کرتے انہوں نے یزید کو گالیاں دی ہوں‘ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہو‘بد خوئی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا ہو۔مفتی منیب صاحب سے عرض ہے ۔۔۔آپ خادم حسین کے نقش قدم پر چلیں اور دیگر مسلمانوں کو خلفاءراشدین اور امام حسین ؓ کے طریقہ پر چلنے دیں!

مفتی منیب الرحمن نے خادم رضوی کے مشن کو مقدس اورانکے طریقے کو سب سے بڑی عبادت قرار دیا ہے۔سوشل میڈیا پر علامہ مظفر حسین شاہ کی ایک وڈیو گردش میں جس میں وہ مولانا مودودی کو نجس‘ کتّا‘ گستاخ رسول اور نجائے کیا کیاگالیاں بک رہے ہیں اور مفتی منیب الرحمن اس محفل میں براجمان سر ہلا رہے ہیں۔کیا مخالفین کوگالیاں دینا‘ بدزبانی‘ بد اخلاقی ‘ توڑ پھوڑ اور سرکاری املاک کو نقصان پہچانا.... مقدس مشن ہے!

جماعت اسلامی کی مجبوریاں بھی واضح ہیں۔ انہیں خادم رضوی کی لا محالہ حمایت میں بولنا ہے۔ نہیں بولیں گے تو بریلوی ووٹ ہاتھ سے جانے کا خدشہ ہے۔خادم رضوی کی موت پرجماعت اسلامی کے سب کارکنان نے (چند ایک کو چھوڑ کر)براہ راست تو خادم رضوی کی حمایت سے گریز کیا لیکن خادم رضوی کے مخالفین اور لبرل طبقات کو خوب کوسنا شروع کردیا ہے۔ٹھیک ہے جناب۔۔مخالفین کو گالی دینا آپ کا آزادی اظہار کا حق ہے مگر غور کریں تو سوچنے کی بات یہ بھی ہے!

 فاعتبروا یا اولوا الابصار۔۔۔اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم مولانا مودودی ؒ کو جب ایک جاہل فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی‘ً مولانا نے اپنی بیگم کو خط میں لکھا۔۔اگر اللہ کی مشیّت نہ ہو تو یہ سب الٹے بھی لٹک جائیں تو مجھے لٹکا نہیں سکتے ۔بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے موت و زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔پاکستان کے سارے کٹّر بریلوی‘ خادم رضوی اور آج کے جماعت اسلامی والے ۔۔۔ سب الٹے لٹک گئے مگر اللہ کی مشیّت کو شکست نہیں دے سکے۔جس چیف جسٹس ثاقب نثار کے نواز شریف نا اہلی فیصلے پر مٹھائیاں بانٹتے تھے اسی جج کے ہاتھوں‘ اللہ نے ان سب کی آرزؤوں کو خاک میں ملادیا۔ایک کمزور عورت ....آسیہ بی بی....کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔افلا تعقلون!

آسیہ مسیح کی سپریم کورٹ سے برئیت کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے ۔۔اللہ تعالی نے خادم رضوی کا سارا فلسفہ‘ ممتاز قادری کا جھوٹا ہیولہ اورخود ساختہ ساری تعمیر شدہ عمارت ہی گرا دی۔ واللہ اعلم بالصواب

دیوبندیوں کے مشہور مفتی عدنان کاکاخیل نے خادم رضوی کی وفات پر زبانی تعزیت بھی بہت خوب کی ہے‘ فرمایا ۔۔خادم رضوی ۔۔عشق رسول ﷺ کی گرجدار اور بے خوف آواز بلکہ تحریک تھے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے۔بقول انہی کے۔۔۔اس گرجدار اور بے خوف آواز بلکہ تحریک میں۔۔دیوبندی یا اہل حدیث مسلک کا عالم یا مفتی اور جماعت اسلامی کا کوئی قابل ذکر لیڈرایک لمحہ کے لئے انکے دھرنے یاجلسوں میں شامل نہیں ہوا۔آخر کیوں!

ایک طبقے کا خیال ہے خادم رضوی کی اچانک موت ........ہماری ایجنسیوں کا شاخسانہ ہے ۔ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو مگر سوال یہ ہے آپ ایجنسیوں کا آلہءکار بنتے ہی کیوں ہیں جو اس انجام تک پہچنا پڑا۔اور یاد رہے ایسی باتوں کی تحقیق اس ملک میں ممکن نہیں!

خادم رضوی کے مشن پر مثبت تنقید سے بات اب یہاں پر آگئی ہے۔۔۔وہ خود بھی اپنی آخیری تقریر میں اور انکے حمایتی کہنے لگے ہیں۔۔۔”توہین رسالت ﷺ پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کر دیں اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں مانگتے۔“

پہلے تو اتنا سمجھ لیں دنیا میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور محمد ﷺ کو اللہ کا آخیری رسول صرف ہم مسلمان ہی مانتے ہیں۔ظاہر ہے اپنے نبی کا احترام ہم ہی کرینگے غیر مسلم کو اسی کے ملک میں ہم مجبور نہیں کر سکتے۔دوسری بات پاکستان ایک کمزور ملک ہے‘ عیسائی دنیا میں اسکے مفادات ہیں۔فرانس کے ساتھ ہمارے دفاعی معاہدے ہیں‘ ہمیں ان معاہدوں کو کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے تھا‘ فرانس میں فریڈم آف اسپیچ کی کوئی حدود متعین نہیں اور وہ اس پر کوئی رعایت دینے کو کبھی تیار نہیں ہونگے۔زیادہ سے زیادہ مسلمان یہ کہہ سکتے ہیں۔۔۔جناب! آپ ہمارے نبی کی توہین مت کریں ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔یہ بات شائستگی سے فرانسیسی حکومت کو بغیر کسی گالی گفتار اور توڑ پھوڑ کے بھی کہی جاسکتی تھی۔

فرانس یورپی یونین کا ممبر ملک ہے اس کے خلاف کوئی سفارتی ایکشن پاکستان کو یورپی برادری (جو عموماً کرسچئن ممالک ہیں) میں شدیدنقصان پہنچائے گا۔ وہاں پاکستانی مسلمان آباد ہیں‘ ہمارے ہزاروں طلباءتعلیم حاصل کرتے ہیں‘ ہماری مصنوعات ان ممالک میں فروخت ہو کر ہمیں زرِ مبادلہ کما کر دیتی ہیں۔ہمارے اس عمل کا سب سے زیادہ فائدہ موجودہ ہندوستانی حکومت اٹھائے گی اور ہم مفلسی میں آٹا گیلا کروابیٹھیں گے۔

شانِ رسالت ﷺ ہمارے لئے تو اہم ترین چیز ہے لیکن کسی غیر مسلم کے لئے نہیں۔یاد کریں‘ جب رسول اللہ ﷺ حضرت بلالؓ کے پاس سے گزرتے اور انہیں انکا بدبخت آقا صرف شانِ خداوندی پر ایمان لانے پر اذیتیں دیتا تھا تو آپ صرف صبر کی تلقین کرتے تھے۔ کیونکہ نہ اُس وقت مسلمانوں کی اتنی قوت تھی اور نہ ہی حضرت بلالؓ کے اتنے وسائل کہ اس ظالم سے چھٹکارا پا سکیں۔ یہی حال اس وقت پاکستان کا ہے!

ایک اور اہم نکتہ۔۔ان کارٹونوں کا اجراءڈنمارک سے ہواپھر ہالینڈ میں بھی اسی طرح کی کوشش ہوئی۔ ہم نے بحیثیت پاکستانی حکومت کیا احتجاج کیا اور کیا تو اسکا کیا اثر ہوا۔گویا یہ مسئلہ محض ایک ملک فرانس کا نہیں بلکہ کئی یورپی ممالک اس میں شامل ہیں۔ انہی سب باتوں کو دیکھ کر ہمیں حکت عملی بنانی ہو گی۔ایسی حکمت عملیاں سڑکوں پر نعرے لگا کر نہیں بنتیں نہ ہی سفراءکو ملک بدر کرنے کے کوئی مثبت نتائج سامنے آتے ہیں!

مولانا مودودی نے اپنی کتاب ....”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں “ میں لکھا ہے....”رب الہ وغیرہ کے مفہوم.... مرور زمانہ سے بدلتے چلے گئے اب اکثر مسلمان ان کا مطلب تک نہیں جانتے۔“ ان الفاظ پر مولویوں نے بڑا شور مچایا‘ سید مودودی نے کفر لکھ دیا ہے لیکن وقت نے ثابت کیا یہی درست تھا۔ آج عشق رسول‘ توہین رسالت ‘ریاست مدینہ جیسے الفاظ کے حقیقی مطلب کھو گئے ہیں کوئی نہیں جانتا سچا عاشق رسول کون ہوتا ہے‘ عصر حاضر میں سیرت رسول ﷺ کے کیا تقاضے ہیں اور ہمیں اس باب میں کیا کرنا چاہیے! صلی اللہ علیہ وسلم