Monday, October 26, 2020

اللہ کے پاک رسول ﷺ کی حُرمت‘ فرانس اور جذباتی مسلم عوام و حکمراں!

ڈاکٹر نادیہ خان

تقریباَ تین ہفتوں سے ۔۔۔۔فرانس میں ایک ہیجان برپا تھا‘ فرانسیسی صدر میکرون اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو قابو کرنا چاہتے تھے‘ اسی ضمن میں انہوں نے بیان دیا۔۔۔اسلام کو کرائسس کا سامنا ہے وغیرہ وغیرہ۔مسلم دنیا کی کسی شخصیت نے اس پر کوئی ردِعمل نہیں دیا ۔اللہ بھلا کرے مولانا فضل الرحمن کے پی ڈی ایم جلسہ کا جسے قابو کرنے کے لئے کسی ایجنسی کے اہل کار کی اس خبر پر نظر پڑ گئی۔بس اب تمام حوالدار صحافی‘ اسٹیبلشمنٹ کے وظیفہ خوار اور دین کے خود ساختہ علمبردار۔۔۔۔ میدان میں عمل میں نکل آئے اور صورتحال کچھ یوں ہے!

تین روز سے اسٹیبلشمنٹ کے طرفدار پاکستان میں ۔۔ فرانسیسی صدر کے خلاف متحرک ہو گئے ہیں اور فرانسیسی اشیاءکے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مدعا یہ ہے فرانسیسی صدر میکرون نے ۔۔رسول اللہ ﷺ کی توہین کی ہے‘ اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دیا ہے اور فرانسیسی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔اس کا پس منظر یہ ہے‘ فرانسیسی صدر نے متنازعہ ترین کارٹونوں کی پیرس کی سرکاری عمارات پر نمائش کی اجازت دی تھی۔ایسا کیوں ہوا ہے اسے بعد میں دیکھیں گے پہلے یہ دیکھتے ہیں‘ اس خبر کوکس نے کیسے استعمال کیا۔ 

پاکستانی حکومت نے اس خبر کو اپنے مقاصد میں خوب استعمال کیا۔۲۵  اکتوبر کو حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کا کوئٹہ میں جلسہ تھا۔حکومت اور اسکے اتحادی جرنیلوں کو یقین تھا وہاں مخالفین سخت تقریریں کرینگے اسی سبب۔۔۔ اس خبر کو ایسے پھیلایا گیا کہ سیاسی کارکنوں کے مذہبی جذبات کو منتشر رکھا جائے۔انٹرنیٹ کے آنے سے دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے‘ خبر چند لمحوں میں پوری دنیا میں پہنچ جاتی ہے لیکن یہ خبر کئی روز پرانی تھی جو بین الاقوامی اخبارات میں چھپ بھی چکی تھی‘ اُس وقت ہمارے جذباتی دینداروں نے اس پر توجہ نہیں دی۔ مخالفین کے جلسہ کے موقع پر اسے پاکستان میں ایک خاص طریقے سے عام کیا گیاکہ عوام کی توجہ اس حساس موضوع کی طرف ہو جائے۔ایجنسیوں کی جانب سے پاکستانی حوالدار میڈیا کو ٹاسک دیا گیا‘کسی بھی طرح سوشل میڈیا پر کوئٹہ جلسہ کی خبر کو کم سے کم کوریج ملے چاہے اس کے لئے اس حساس مذہبی موضوع کوہی کیوں نہ بیچ میں لانا پڑے! آئی ایس پی آر کے بریگیڈئیر۔۔۔۔صاحب نے سوشل میڈیا ٹیم کو فرانس کے حساس موضوع پر زیادہ سے زیاہ ٹوئٹس اور ٹرینڈ بنانے کا حکم دیا اور ہم خیال صحافیوں کو اس موضوع پر اسی روز لکھنے و بولنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ ساتھ ہی صوبائی حکومت نے احتیاط کے نام پر فون لائنیں بندکردیں اور ڈبل سواری پر پابندی لگا دی۔گویا حکومت نے اللہ کے پاک رسول ﷺ کے نام کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے خوب استعمال کیا۔

ترکی کے صدر طیب اردوان‘ امت مسلمہ کے قائد بننا چاہتے ہیں اسی لئے وہ کاسمیٹک اقدامات سے جذباتی ترک نوجوانوں کو متحرک رکھتے ہیں۔انہوں نے فرانسیسی صدر کو دماغی مریض قرار دیا۔۔۔لیکن یہ کہتے وہ بھول گئے ۔۔دماغی مریض تو معذور ہوتا ہے مگربزدل حاکم وبال ہوتا ہے۔انکے اپنے ترکی میں ایک صحافی ۔۔۔جمال خشوگی۔۔کا بھیانک قتل ہوا تھا جسکے مجرموں کو امت کے نگہبان جناب اردگان صاحب۔۔۔ سزا نہیں دلواسکے!

امیر جماعت اسلامی نے عربی زبان میں ٹوئٹ کی جس میں حکومت پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔ کوئی ان سے پوچھے ۔۔۔جناب عالی۔۔یہاں مطالبہ حکومت پاکستان سے کیا جارہا ہے اور ہماری سرکاری زبان اردو ہے تو پھر یہ عربی میں ٹوئٹ کیوںاور اگر حکومت پاکستان کی آڑ لیکر مخاطب۔۔ عرب ممالک کی حکومتیں ہیں تو عرب امارات و سعودی عربیہ۔۔۔پہلے ہی حکومت فرانس کے ساتھ کھڑے ہیں۔دوسری بات امیر جماعت اسلامی صوبائی وزیر خزانہ اور سینئر صوبائی وزیر رہے‘ اب سینیٹر ہیں۔ جب بین الاقوامی دفاعی منصوبوں کی بات ہوتی ہے وہ عیسائی ملکوں کا بائیکاٹ کیوں نہیں تجویز کرتے۔ فرانس سے میراج طیارے ملنے پر اس وقت کے امیر جماعت اسلامی نے نے خوشی کا اظہار کیا تھا ان سے بھارت پر دھاک بیٹھے گی۔ عیسائی ملک ہمارے نبی کو اس وقت بھی نہیں مانتے تھے‘ نہ انکا ویسا احترام کرتے ہیں جیسا ہم کرتے ہیں۔آج جب ہماری فضائیہ بحریہ فرانسیسی ٹیکنالوجی میں ٹرینڈ ہو چکی ہے فرانسیسی اشیاءکے بائیکاٹ سے ہمیں ہی مشکل ہو گی۔کیا وہ نہیں سوچتے ‘ اس معاملے میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کر لی جائے ‘مثلاً حضور ﷺ نے بدزبان کفار مکہ کے سماجی و معاشی بائیکاٹ کے بجائے حسان بن ثابتؓ کی جواباً شاعری پر انکی حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔مقصد یہی تھا‘ تلوار کے بجائے بدزبانوں کو انہی کے پیرائے میں دلیل سے جواب دیا جائے!

پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھی فرانس کو تلقین کرنے میدان میں آگئے ۔۔۔سوشل میڈیا پرمذہبی اور عمران خان کے قریبی حلقے فرانسیسی اشیاءکے بائیکاٹ کو کفر و ایمان کا پیمانہ قرار دیکر بائیکاٹ کی تلقین کرنے لگے مگر یہ بتائیں وزیراعظم نے کیا بندوبست کیا ہے کیونکہ پاک فضائیہ فرانسیسی میراج اور دیگر طیاروں کی سب سے بڑی خریدار ہے۔پاک بحریہ کی سب میرین بھی فرانسیسی ہے اسکے علاوہ آپ کی سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی فرانس کی ہے ۔پانچ سو ملین ڈالر کی سالانہ تجارت اسکے علاوہ ہے۔ ان نعروں سے نجانے عمران خان کس کو بیوقوف بنانا چاہتے ہے؟

متحدہ عرب الامارات نے فرانس میں اس ساری گڑبڑ کا الزام اخوان المسلمین پر لگایا اور فرانسیسی صدر کے ساتھ کھڑا ہونے کو ترجیح دی۔ باوجودیکہ دنیا جان چکی ہے اور فرانسیسی حکام نے بھی اس میں ۔۔داعش۔۔ کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا‘ اخوان کا نہیں۔فرانس کے خلاف فلسطینیوں اور چیچن قوم نے بھی مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ کوئی اہل فلسطین سے پوچھے اللہ کے بندوں‘ تم پر ظلم ضرور ہورہا ہے مگرجتنا علاقہ تمھیں اسرائیل سے مل چکا ہے آج ستر سالوں کے باوجود وہاں کوئی اسلامی نظام نہیں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ فلسطینی حکومت دنیا کی کرپٹ ترین حکومت شمار ہوتی ہے۔اور چیچن مذہبی طبقہ وہی ہے جس نے روسی بچوں کے اسکول میں گھس کر معصوم بچوں کو قتل کیا۔نجانے یہ کونسی اسلامی تشریح ہے جس میں بچوں کا قتل بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہے!

کتنے دُکھ اور افسوس کی بات ہے‘پاکستان کا جذباتی مذہبی طبقہ ہو یا ترکی ‘ فلسطین و الامارات۔۔۔۔مسلم ممالک۔۔۔رسول اللہ ﷺ کے پاک نام کو اپنے ملکی مسائل اور سیاسی دشمنی نکانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

دوسری اہم بات۔۔توحید کے بعد ‘ رسول اللہ ﷺ سے محبت عین ایمان ہے اسکے بغیر نہ ایمان مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی ایمان کی حلاوت نصیب ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی غیر مسلم‘اپنے ملک میں۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کو برا کہے تو کیسے اس مسئلہ سے نمٹنا ہے‘ اس پر ہمارے علماءخاموش رہتے ہیں۔ پھر داعش اور القائدہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں جب اپنے کارندوں کو بھیج کر مغربی ممالک میں غیر مسلموں کو قتل کرتی ہیں تو اس پر معنی خیز انداز میں اسلاموفوبیا کا نعرہ لگاتے ہیں۔ یہ طریقہ انصاف پر مبنی نہیں! پہلے امام بخاریؒ کے حوالے سے حضرت عمر ؓ کی وصیت پڑھ لیں جس پر صحابہ کرام ؓ عمل کرتے تھے۔اسکا حوالہ علامہ شبلی نعمانی ؒ کی مشہور زمانہ کتاب۔۔الفاروق۔۔۔ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ جب قرون اولی کی اسلامی خلافت میں عیسائیوں کو اپنے گرجا گھروں میں سب کچھ کہنے کی آزادی تھی تو۔۔آج بھی انہیں اپنی کافر مملکت میں ہم کیسے روک سکتے ہیں۔مسلمان اس پر زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں۔۔۔جمہوری روایات کے ساتھ احتجاج کر سکتے ہیں‘ مقامی مسلمان آبادی کی اخلاقی حمایت جاری رکھ سکتے ہیں‘ اقوام متحدہ میں مل کر کوئی ایسا قانون بنوا سکتے ہیں جس کی رو سے مقدس ہستیوں کو استثناءحاصل ہو اور ان پر روایتی تنقید یا پھکڑ پن  کے کارٹون یا کیری کیچر یا گندے اعتراضات شائع نہ ہو سکیں!

اس طویل تمہید کا پس منظر یہ ہے۔۔چندہفتے پہلے ایک عیسائی استاد سیموئیل ساٹی نے پیرس میں اپنے طلبہ کو چارلی ہیبڈو میں چھپنے والے کارٹون دکھائے۔اس دکھانے کے جو بھی اسباب ہوں اتنا واضح ہے فرانس انکا ملک ہے اور اس میں وہ آزاد ہیں جو چاہے کریں۔طیش میں ایک چیچن تارک وطن اور چند الجزائری مسلم طلبہ نے استاد کو اغواءکیا اسکا گلا کاٹا‘ذبح کرتے اسکی وڈیو وائرل کردی۔ ظاہر ہے صدر میکرون کی فرانسیسی حکومت حرکت میں آئی۔ایک تو غیر قانونی تارک وطن پھر قتل اور مذہبی دہشت گردی اسکی تشہیر۔صدر میکرون نے مقتول استاد کے لواحقین سے ہمدردی کی اور شاید تمام دہشت گردوں کو پیغام دیا۔۔اگر وہ یہ قتل کرسکتے ہیں تو ہم بھی متنازعہ ترین کارٹون کی تشہیر کرسکتے ہیں۔اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں۔۔۔اسلاموفوبیا کی ابتداءکس نے کی ہے۔

ہماری قدیم اسلامی کتب میں ایک واقعہ شدت سے نقل کیا جاتا ہے۔۔۔قاضی شُریح ؒنے حضرت علی ؓ کے خلاف فیصلہ دیا تھا حس پر امیر المومنین حضرت علی ؓ نے پسندیدگی کا اظہار بھی کیا تھا۔مجھے یقین ہے ہم پر جذباتیت اس درجے غالب آ چکی ہے اگر قاضی صاحب آج ہوتے اورقرآن کی پیروی میں ۔۔۔اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل  کے موافق۔۔ انصاف سے فرانس کے حق میں فیصلہ دے دیتے تو قاضی شُریح ۔۔۔۔ہائے ہائے کے نعرے سنتے!

یاد رکھیں جرمنی کے بعد فرانس وہ واحد یورپی ملک ہے جو مسلم تارکین وطن کے لئے نرم ترین گوشہ رکھتا آیا ہے‘ تارکین وطن کے لئے گذشتہ چالیس سالوں سے اسکی پالیسیاں نہایت نرم ہیں تبھی نوبت یہاں تک پہنچی اسکی کُل آبادی کا تقریباً دس فیصد۔۔۔جی ہاں دس فیصد مسلمان تارکین وطن پر مشتمل ہے‘ اتنی بڑی تعداد تو۔۔ شیعوں کی کراچی جیسے کثیر آبادی والے شہر میں نہیں ہے‘ یا یوں سمجھ لیں جتنے غیر مسلم (تقریباً 3 ملین)پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی میں نہیں اسکے ڈبل (6 ملین) مسلمان فرانس کی 6 کروڑ کی آبادی میں موجود ہیں۔اس سے آپ فرانس کی مسلمان نواز پالیسی کا اندازہ کر لیں۔یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد فرانس ہی میں آباد ہے۔پھر اسلام ۔۔فرانس میں دوسرا بڑھتا ہوا مذہب ہے‘ چپے چپے پر مساجد تعمیر کی اجازت اور عربی کے ساتھ اسلامی کتب کی طباعت کی اجازت۔۔۔اندازہ کریں اسلامی کتب کا بڑا ذخیرہ عربی زبان کے بعد فرانسیسی زبان میں موجود ہے۔ یہ سب باتیں فرانس کی مذہبی فراخدلی کو دوسرے یورپی ممالک سے ممتاز بناتی ہیں۔آخری بات‘ صدر میکرون کی پالیسیاں متوازن تھیں اگر سیموئیل ساٹی کو داعش کے دہشت گرد قتل نہ کرتے تو وہ انتہائی اقدام پر مجبور نہ ہوتے۔ فرانس میں اگلے انتخابات صرف اٹھارہ مہینے دور ہیں جن میں میکرون کی مخالف امیدوار صرف چار فیصد نیچے ہیں جنکی پالیسیاں۔۔۔اللہ کی پناہ‘ مسلمان تارکین وطن مخالفت کی انتہا پر ہیں۔ دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی کوئی ایسی جذباتیت جس سے فرانس میں اسلام اور مسلمانوںکا وجود خطرے میں پڑ جائے‘ یاد رکھیں روز قیامت آپ کو اسکا حساب دینا پڑیگا۔

 بالفرض اگر سیموئیل ساٹی کا بھیانک قتل جائز بھی ہوتا ۔۔ تب بھی  مسلم ممالک اور انکی عوام کو شائستگی سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے تھا۔فرانسیسی حکومت کو بتاتے۔۔آزادی اظہار کی حدود جب مجروح ہوتی ہیں تو طیش و جذبات میں ملکی امن و امان بگڑ جاتا ہے۔لیکن اس معاملے میں یک طرفہ طور پر فرانس کو مورد الزام ٹھہرانے سے گریز کرتے۔یہ ٹھیک وہی رویہ ہے جو ہم سب نے بحیثیت پاکستانی۔۔۔۔آسیہ بی بی کے ساتھ اختیار کیا‘ اور اب یہ طے ہے اسکی اگلی کئی نسلیں اسلام کی تعلیمات قبول کرنے میں ہچکچائیں گی!

گویا ہم داعی دین کے درجے سے گر کر ایک منتقم مزاج قوم بن گئے ہیں۔

آخیر میں آزادی اظہار رائے کو بھی دیکھ لیں۔انبیاءکی حُرمت پر عالمی قانون سازی ہونی چاہیے ڈیڑھ بلین مسلمانوں کے جذبات اس سے جڑے ہیں۔ ہمارے خلیفة المسلمین حضرت عمران خان۔۔ جب اقوام متحدہ جاتے ہیں تو اس مسئلہ کو کیوں نہیں اٹھاتے مسلم حکمرانوں کی مدد کیوں نہیں مانگتے۔صرف اپنی ربر پارلیمنٹ میں کاسمیٹک مذہبی اقدامات کرکے کیوں عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔لیکن کبھی کبھی خیال آتا ہے اگر غیر مسلم دنیا کسی ایسے قانون پر راضی ہوئی اور یہ شرط عائد کردی۔۔ ہم بھی مسلمانوں کے شعائر کا احترام کرینگے اگر مسلمان بھی ہماری تباہی و بربادی کی دعائیں مانگنا چھوڑ دیں تو ہمارے علامہ ابتسام الہی ظہیر جیسے علماءکی دعائیں یا جمعہ و عیدین کے خطبے کتنے پھیکے ہونگے!!

یاد رہے کافروں کے باب میں رسول اللہ ﷺ کا طریقہ۔۔۔لعلک باخع نفسک ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفاً (الکھف)۔۔تھا۔