Friday, January 15, 2021

 

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان

قاضی حسین احمد مرحوم۔۔۔۔۔ ایک تجزیہ

(تحریر۔۔ڈاکٹر نادیہ خان)

حصہ اول

قاضی حسین احمد مرحوم ایک صاف گو‘ متحرک اور دلآویز شخصیت کے مالک تھے‘ صرف جماعت اسلامی ہی نہیں انکے سیاسی مخالفین تک انکا احترام کرتے اور انکی رائے کو اہمیت دیتے تھے! وہ سیاست داں سے زیادہ داعی دین اور جس دینی جز کو مناسب سمجھتے اسے اپنا اُوڑھنا بچھونا بنا لیتے تھے‘ اسی سبب ان پرسیاست سے زیادہ دعوت دین اور غلبہ اسلام کی سیاسی جدوجہد کا جوشِ جنون ساری عمر غالب رہا۔

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ہے یہاں مذہبی شخصیات کو اتنا تقدس حاصل ہوتا ہے کہ انکے سیاسی فیصلوں پر تنقید تک گوارہ نہیں کی جاتی۔عصر حاضر میں مسلم اقوام کا یہی سب سے بڑا المیہ ہے انکے بزرگ انتقال کے بعد”اوتار“ کے درجہ پر فائز کر دیے جاتے ہیں اور انکی سیاست‘ سیاسی فیصلوں یا ان پر ہلکی سی بھی تجزیاتی تنقید……توہین بزرگان دین کے زُمرے میں شمار کی جاتی ہے۔ 

اس اعتراف کے ساتھ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم ایک شاندار شخصیت‘ بے باک سیاست دان اور اپنی ذاتی زندگی میں تقوی و ایمانداری کی مثال تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک سیاست دان اور سیاسی جماعت کے طویل عرصے تک امیر یا سربراہ بھی رہے۔ انکا عہد امارت1987 سے شروع ہو کر2009کو اختتام پذیر ہوا۔22 سالوں کے طویل عرصے میں انہوں نے کئی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کیا‘ مختلف سیاسی اتحادوں میں شامل رہے‘ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ممبر رہے اور اپنی سیاسی جماعت کی حد تک کئی انقلابی اقدامات کا ڈول ڈالا۔اس تحریر میں ہم صرف انکے سیاسی فیصلوں پر روشنی ڈالیں گے۔پہلے ان چند سوالات اور چیلنجز کو جان لیں جو انکے عہد امارت میں پاکستانی قوم اور بالخصوص جماعت اسلامی کے سامنے موجود تھے۔

جنرل ضیاء سے علیحدگی۔۔۔مگر افغان خانہ جنگی یا جہاد میں شمولیت!

یہ صحیح ہے افغان جنگ میں شمولیت صرف قاضی حسین احمد مرحوم کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کی امارت سے سالوں پہلے جماعت اسلامی کے دوسرے امیر میاں طفیل محمد مرحوم یہ فیصلہ لے چکے تھے اور۔۔۔اپنی سیاسی جماعت کا وزن جنرل ضیاء کی جھولی میں ڈال کر صرف چند ہی ماہ میں ……ان سے سیاسی اختلاف کی بنیاد پر علیحدہ بھی ہو چکے تھے۔یاد رہے کہ1984 میں جب جنرل ضیاء نے طلباء تنظیموں پر پابندی عائد کی تو جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم ……اسلامی جمعیت طلبہ نے جنرل صاحب کے خلاف بھرپور احتجاج کیا تھا۔حیرت اس بات پر ہے جماعت اسلامی جنرل ضیاء کی سیاسی دوکان میں شمولیت سے گریزاں تھی(جناب محمود اعظم فاروقی اور پروفیسر غفور صاحبان جنرل ضیاء کی بنائی کابینہ سے مستعفی ہو چکے تھے) مگر جنرل صاحب کے نورتنوں نے مذہب اور جہادکے نام پر افغانستان میں ایسا جادو چلایا تھاکہ جماعت کے یہ دونوں امیر۔۔۔پورے اختلاف کے باوجود بھی جنرل ضیاء کی اس بھڑکائی آگ سے الگ نہیں ہوئے‘ خصوصاً قاضی صاحب مرحوم اس”جہاد“  میں تن من دھن کے ساتھ شرکت کو دینی غیرت سمجھتے اور اسلامی حمیت سے تعبیر کرتے تھے!


قاضی صاحب کے دورِ امارت میں‘صرف پاکستانی کی حد تک نہیں بلکہ قاضی صاحب نے اثر و رسوخ استعمال کرکے افغان تنظیم حزب اسلامی کے کارکنان۔۔۔جو مولانا مودودیؒ کی تعلیمات سے بہت متاثر تھے انہیں اس افغان جہاد میں شامل ہونے‘ پاکستانی جرنیلوں کی مدد کرنے پر قائل کیا اور اسی تنظیم کے سربراہ گلبدین حکمت یار تک کو امریکی وائٹ ہاؤس تک پہنچانے‘ امریکہ کے لئے بحیثیت دوست پیش کرنے اور امریکی امداد کا سب سے بڑا حصہ حاصل کرنے میں قاضی صاحب کی مرضی و کوششیں شامل رہی حالانکہ اس وقت بھی اور بعد کے حالات نے ثابت کیا۔۔۔حکمت یار ایک متشدد مجاہد‘ دوسرے مجاہدین کی قربانیوں کو تسلیم نہ کرنے والے‘ باہم قتل و غارتگری کو فروغ دینے والی شخصیت تھے اور انکی متنازعہ شخصیت ہی طالبان کے عروج کا سبب بنی!

کراچی میں فوجی ایجنسیوں کی بدولت الطاف حسین کا ظہو ر۔۔۔مگر جماعت اسلامی ایجنسیوں کے ساتھ رہی!

قیامِ پاکستان کے بعد سے طویل عرصے تک جماعت اسلامی کو کراچی و حیدرآباد میں سیاسی برتری حاصل تھی۔ 1984 تا 1988کے عرصے کے دوران‘ کراچی میں ایجنسیاں الطاف حسین کو لانچ کر رہی تھیں۔۔۔مقصد شاید جماعت اسلامی کو سیاسی سبق سکھانا تھا کیونکہ جماعت اسلامی نے جنرل ضیاء کا سیا سی طور پر ساتھ دینے سے انکار کیا تھا لیکن قاضی صاحب مرحوم جو1987ء  میں جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو چکے تھے‘ انہوں نے شاید ہی اس پر سوال کیا ہو یا  مقتدر حلقوں کودھمکی دی ہو کہ وہ ایجنسیوں کا افغانستان کی حد تک ساتھ چھوڑ دینگے اگر کراچی میں انکی سیاسی قوت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔

سوال یہ ہے…… یہ وہی زمانہ تھا جب کراچی میں ایجنسیاں ایم کیو ایم کو بڑھاوا دے رہی تھیں مگر جماعت اسلامی انہی ایجنسیوں کے ہاتھوں استعمال ہو کر”افغان جہاد“ میں مصروف تھی اور پلٹ کر ان ایجنسیوں کے سربراہ جنرل ضیاء  یا انکے ساتھی جرنیلوں سے یہ پوچھنے کی زحمت تک گوارہ نہیں کرتی تھی۔۔۔یہ کیسا اتحاد ہے جہاں ایک طرف روس کو اسلامی جہاد کے نام پر شکست دینے کی کوشش میں جماعت اسلامی۔۔۔ آمنا صدّقنا۔۔کہہ کر شامل ہے‘خون بہا رہی ہے‘ افرادی قوت مہیا کر رہی ہے اور دوسری طرف وہی پاکستانی ایجنسیاں ……سیکیولر الطاف حسین کو کراچی و حیدرآباد میں لانچ کر رہی ہیں تاکہ ان شہروں سے جماعت اسلامی کا سیاسی صفایا کیا جا سکے!

ہو سکتا ہے بند کمروں میں قاضی صاحب نے بطور امیر جماعت اسلامی کچھ احتجاج کیا ہو مگر عملاً وہ جہادِ افغانستان کی حد تک جنرل ضیاء کی ہر طرح مدد کرتے رہے!

کراچی و حیدر آباد میں مہاجروں کا عروج اور جماعت اسلامی و ایم کیو ایم کی باہم لڑائیاں

جیسی کیفیت اس نئے دور میں ……2018کے انتخابات کے دوران…… ہماری ایجنسیوں کی بدولت عمران خان کی پی ٹی آئی کو حاصل ہوئی ہے اور ایم کیو ایم کے کٹّر ممبران  (جو ایک زمانے تک ”جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے“ کا پرچار کرتے رہے اور ڈرتے رہے)تک ہوا کا رخ دیکھ کر اس میں شامل ہو گئے۔۔۔۔ 1984 میں الطاف حسین کی لانچنگ کے وقت بہت سے جماعت اسلامی کے ہمدرد و نوجوان۔۔۔مہاجر قومی موومنٹ میں شامل کئے گئے تھے جس نے آگے چل کر مہاجر طبقے کے ان دو متضاد سوچ رکھنے والے سیاسی گروپوں میں شدید رقابت کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ جس کے سبب مہاجر طبقے میں باہم قتل و غارت گری کا ماحول بن گیا تھا۔ 

ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی و حیدرآباد جہاں جماعت اسلامی کی اکثریت تھی وہاں مہاجر فیکٹر اس درجے سوسائٹی میں داخل کیا گیا کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد (کئی ہزار نوجوان) باہم خانہ جنگی (مہاجر قومی موومنٹ یا حقیقی یا اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان) کی بھینٹ چڑھ گئی جسکی ابتداء مہاجر قومی موومنٹ کے کارکنان نے کراچی یونی ورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس جو پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظم کے طور پر جانی جاتی تھی کے سرکردہ کارکنان کے سروں پر کلاشنکوف رکھ کر انہیں بیدردی سے قتل کرکے دیگر طلبہ میں اپنی دھاک بٹھانے  کی کوشش کی تھی۔اخبارات و رسائل میں ایک اور کیس کا بہت چرچا رہا جب اسلامی جمعیت طلبہ کے کراچی کے ایک کارکن عامر سعید کو مہاجر قومی موومنٹ (اس وقت متحدہ قومی موومنٹ ……مہاجر قومی موومنٹ کہلاتی تھی) کے کارکنان نے اذیتیں دے دیکر قتل کیا اور اُس وقت امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کراچی پہنچ کر اسکی نمازِ جنازہ پڑھائی تھی۔

سوال یہ ہے ان حالات میں قاضی صاحب نے ایجنسیوں یا جرنیلوں سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے تھاجنکی سرپرستی میں الطاف حسین کے کارکنان ان دہشت گردیوں کے مرتکب ہوتے تھے اور کراچی اور مہاجر علاقوں میں جماعت اسلامی کا زور توڑنے کی کوششیں کرتے تھے……”آخر جماعت کے کارکنان ہی اس سیاسی قربانی کی بھینٹ کیوں چڑھیں؟“ جبکہ دوسری طرف جماعت اسلامی ان جرنیل کو افغانستان کی حد تک دامے درمے سخنے کامیاب بناتی رہے؟ آخر کیوں!

پاسبان یا شباب ملی بنانے سے کیا ملا؟

قاضی صاحب کے عہد امارت میں ”جہاد افغانستان کے تسلسل“ کے بعد دوسرا بڑا کام۔۔۔ پاکستانی نوجوانوں کو جماعت اسلامی کے پیغام سے نئے سرے سے روشناس کروانا تھا۔اس مقصد کے لئے پہلے نوے کی ابتدائی دھائی میں ”پاسبان“ کو متعارف کروایا گیا۔محمد علی درانی جو پہلے اسلامی جمعیت طلبہ خیبر پختون خواہ کے ناظم تھے انکی مدد سے پاسبان کی تشکیل ہوئی مگر درانی صاحب نے پاسبان کے بجائے ملت پارٹی بنا لی جو بعد میں مشرف کی رضامندگی سے ق لیگ میں ضم ہوئی اور درانی صاحب مشرف کے نورتن بن گئے!


جب پاسبان کے محمد علی درانی ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار نکلے تو جماعت اسلامی نے ہمت نہیں ہاری اور شباب ملی کو1994 میں متعارف کروایا۔شباب ملی کا عوام پر کوئی اثر نہیں پڑا البتہ اس تنظیم کا ایک ٹارگٹ کسی طرح گھیر گھار کر عمران خان کو شباب ملی یا جماعت اسلامی میں لایا جائے‘ کچھ تفصیل چاہتا ہے۔یہاں دو سوال بنتے ہیں۔۔۔اول جماعت اسلامی کو اسلامی جمعیت طلبہ کی موجودگی میں ایک نئی طلبہ تنظیم کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی تھی اور دوسرے کرکٹر عمران خان جو اس وقت بہت مشہور تھے اور لبرل طبقات میں انکی رسائی تھی انکی شباب ملی پاسبان یا جماعت اسلامی میں شمولیت سے ……جماعت اسلامی پر کیا اثر پڑتا؟

ظاہر ہے یہ سب کچھ امیر جماعت کی مرضی و منشاء سے شروع کیا گیا ہو گا کیونکہ نئی تنظیم کے سرپرست نعیم صدیقی صاحب مقرر ہوئے جو مولانا مودودیؒ کے قریبی رفقاء میں شمار کئے جاتے تھے۔پاسبان یا شباب ملی بنانے سے ۔۔۔۔سے کیا حاصل ہوا۔ عمران خان کو جماعت اسلامی میں بذریعہ شباب ملی لانے پر جو محنت کئی گئی اسکا نتیجہ الٹا نکلا۔اس پر کوئی بحث مباحثہ نہیں ہوا اور اگر جماعت کی شوری کی حد تک بات چیت اور ناکامی کے اسباب کا سرغ لگایا گیا تو عوام کو اس معلومات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔اس مضمون کے دوسرے اور آخیری حصے میں ہم تفصیل سے ان عوامل پر بحث کرینگے جنکی وجہ سے امیر جماعت کو نوجوانوں کی نئی جماعت بنانے کی ضرورت پیش آئی۔

خیر یہ پرانی خبریں ہیں …… آج بھی جماعت اسلامی کے کچھ بزرگ کارکنان کا خیال ہے امیر العظیم صاحب۔۔۔محمد علی درانی کے اسی مشن کی تکمیل میں جماعت اسلامی سے منسلک ہیں اور روز بروز ترقی کی منازل بھی طے کر رہے ہیں۔