Tuesday, July 7, 2020

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر‘ حکومتی مالی امداد کا وعدہ اور ہمارا مذہبی طبقہ!
ڈاکٹر نادیہ خان
To Read this Article in PDF, Click here

آج کل وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں ہندووں کے مندر کی تعمیر کے لئے اجازت اور فنڈز کی فراہمی پر مذہبی طبقات و تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔
انکے خیال میں غیر مسلموں کی نئی عبادت گاہیں ایک اسلامی ملک میں نہیں بنائی جا سکتی۔ہمارے ملک میں غیر مسلم کی مخالفت کرنا اسلامیت کی نشانی ہے حالانکہ یہ بات قرآن و سنت کے سخت خلاف ہے جو ایک علیحدہ موضوع ہے۔

کسی مندر کی تعمیر پر حکومت اعلان کرے تو ہمارا مذہبی طبقہ فتاوی اور تلواریں لیکر میدان میں آجاتا ہے ۔ کچھ سمجھدار مسلمان بھی ان آوازوں میں آواز ملاتے اعتراض اٹھاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ”جناب.... غریب مسلمانوں کو کچھ نہیں مل رہا اور حکومت غیر مسلموں کو مندر بنانے کی امداد دے رہی ہے۔“ یہ مناسب دلیل ہے لیکن اس سے پہلے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے کچھ مختلف پہلو ہیں‘ پہلے انہیں دیکھتے ہیں۔

معاشی پہلو۔۔۔کیا آپ نے گزشتہ ستر سالوں میں کبھی ہمارے مذہبی طبقے کو دیکھا۔۔۔کرپٹ مسلمان وزیروں مشیروں کے اخراجات پر انہوں نے کوئی جلسہ جلوس نکالا ہو‘ یا صدائے احتجاج بلند کی ہو۔ مثلاً وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں 52 وزیر و مشیر ہیں اور اوسطاً ایک کا خرچہ (سرکاری گھر‘ سیکیورٹی‘ سرکاری گاڑیاں‘ پولیس نفری‘ فون‘ سفر ‘ الاونس‘ فیملی کو سہولیات‘ بچوں کے تعلیمی اخراجات اورفیملی میڈیکل الاونس وغیرہ سب ملا کر)پچاس لاکھ روپیہ مہینہ ہے۔ اب خود اندازہ لگا لیں ہر ماہ پاکستانی مسلمان وزراءمشیر اور خصوصی نمائندے سرکاری خزانے کا کتنا ہڑپ کر جاتے ہیں۔گویا 26 کروڑ ماہانہ صرف ان پر ۔۔۔گورنر اور دیگر سرکاری حکام و ملازمین کے خرچے علیحدہ!

زیادہ پرانی بات نہیں‘ -162014 ءمیں خیبر پختون خواہ کی پی ٹی آئی اورجماعت اسلامی کی صوبائی حکومت نے625 مدارس کو نقد رقوم کی ادائیگی کی جس میں دارالعلوم حقانیہ کو 277 ملین روپے دئے گئے۔اخبار لکھتا ہے اس سارے عمل کے لئے سیاسی رشوت تو بہت چھوٹا لفظ ہے‘ نوشہرہ اور بونیر جو اس وقت کے صوبائی وزیر مذہبی امور حاجی حبیب الرحمن اور وزیراعلی پرویز خٹک کا حلقہ انتخاب بھی تھا وہاں دینی مدارس کو حکومتی فنڈز بے دریغ بانٹے گئے۔(بحوالہ۔۔دی نیشن 12 جولائی 2016ئ۔۔محکمہ اوقاف میں اقربا پروری)
https://nation.com.pk/12-Jul-2016/nepotism-in-the-auqaf-department)

ایک اخباری اطلاع کے مطابق محکمہ اوقاف میں تقریباً 32 فیصد گھوسٹ مساجد رجسٹرڈ ہیں جنھیں باقاعدہ سے سالانہ فنڈز ملتے ہیں۔ اس پر کوئی نہیں آواز اٹھاتا‘ کیونکہ مولوی ناراض ہو جائیں گے۔ اوقاف کے تحت چلنے والی مساجد کابجلی کا بل محکمہ اوقاف ادا کرتا ہے اسکے علاوہ‘ بہت سی مساجد کے بجلی و پانی کے بل نہیں آتے انہیں استثناءملی ہوئی ہے۔مساجد میں بنی دوکانوں کے ضمن میں کرائے کی مد میں ہونے والی آمدنی پر ان مساجد کو ٹیکس بھی نہیں دینا پڑتا۔

مزارات کی آمدن۔۔۔اللہ اکبر۔ مگر اس پر بھی حساب کتاب کی بات کرنے والے قابل گردن زدنی قرار پائیں گے۔ملتان میں شاہ رُکن عالمؒ کے مزار کے متولی۔۔۔ہمارے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی۔۔مزار کی آمدن کی تفصیلات نہیں بتاتے۔کراچی میں عبد اللہ شاہ غازیؒ کا مزار۔۔صوبائی اوقاف کو اچھی آمدن دیتا ہے۔اسکے علاوہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے مزارات جیسے اسلام آباد میں بری امام کا مزار....سے اچھی خاصی آمدن ہوتی ہے۔

قوال اور مزاروں کے مجاورین۔۔۔ہمیشہ سے اپنے آپ کو غریب غرباءمیں شمار کرتے ہیں یہ علیحدہ حقیقت ہے سب کے پاس نئے ماڈل کی گاڑیاں اور اعلی درجے کے مکانات ہوتے ہیں۔پیروں فقیروں اورگدی نشینوںسے کمائی کا پوچھنا.... اپنے آپ کو جہنم میں لے جانے والی بات ہے۔اس کے علاوہ ملک بھر میں لاکھوںمساجد کے ائمہ.... نہ ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی تنخواہوں یا اوپر سے ہونے والی آمدنیوں کا حساب کتاب بتاتے ہیں۔

عام طریقہ یہی ہے .... دینی مدارس کا آڈٹ نہیں ہوتا۔۔ زکوة‘ خیرات‘ صدقات اور تحائف میں کتنا آیا اور کہاں گیا‘ کچھ حساب کتاب پبلک نہیں ہوتا۔بڑے دینی مدارس کے مہتمم ٹیکس ریٹرن نہیں بھرتے اس پر کوئی دیندار نہیں بولتا۔ مفتی نعیم مرحوم فرمایا کرتے تھے ۔۔”سوائے جماعت اسلامی اور ہمارے مدرسے کے کسی دینی مدرسے کا آڈٹ صحیح طریقے پر نہیں ہوتا اور ہم محکمہ اوقاف سے مالی مدد بھی نہیں لیتے۔

بجلی دینے والی کمپنیاں مثلاً کے الیکٹرک‘ لیسکو‘ فیسکو (نام نہ لینے کی شرط پر کہتی ہے ) 12ربیع الاول کو چوری کی بجلی سے ملک بھر میں جو چراغاں کیا جاتا ہے اس بجلی کی مالیت تقریباً 10 کروڑ روپے سے زائد ہوتی ہے مگر اس پر وہ بول نہیں سکتے‘ معاملہ حساس ہے‘ بات توہین رسالت کے الزام تک پہنچ جائیگی اس لئے اس چوری کو ” اسلامی فریضہ“ سمجھتے قبول کر لیا گیا ہے کیونکہ۔۔۔انہیں انہی شہروں میں رہنا ہے۔

دیگرکرپٹ افرادکی دیکھا دیکھی ۔۔مذہبی طبقے کا اب یہ عالم ہے ۔۔۔مفتی منیب الرحمن  ۔۔سابقہ برج بینک کے شریعہ ایڈوائزر‘ دا رالعلوم نعیمیہ کے صدر‘ روئیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین (بلا تنخواہ علامتی عہدہ ہے مگر اسکے لوازمات ہی بہت ہیں جیسے سرکاری ائر ٹکٹ‘ گاڑی بمعہ ڈرائیور‘ ہوٹل میں قیام و طعام کی سہولت۔۔چاند دیکھنے کے عمل کے دوران) اخباری کالموں اورکتابوں کی رائلٹی.... سب سے مل ملا کر(2010-16) تک اچھا کماتے تھے۔انکا ٹیکس ریٹرن ....ایف بی آر کے پاس موجود نہیں۔مفتی پوپلزئی سوائے زکوة کے حکومت کے عائد کردہ ٹیکس ادا کرنے کو حق بجانب نہیں سمجھتے۔ملتان میں مفتی قوی صاحب جو پی ٹی آئی کے علماءبورڈ کے رکن ہیں‘ فرماتے ہیں۔۔” ہم کیوں ٹیکس دیں‘ ہماری کمائی کو استثناءحاصل ہے۔“ صوبہ پنجاب خصوصاً جھنگ کمالیہ وغیرہ میں کوئی مولانا احمد لدھیانوی سے آمدن کا حساب پوچھنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔سابقہ کالعدم لشکر جھنگوی اور حالیہ اہلسنت والجماعت ‘کراچی اور صوبہ سندھ میں متحرک علامہ اورنگزیب فاروقی کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں لیکن موصوف شہر میں لینڈ کروزر میں گھومتے اور کئی باڈی گارڈ ساتھ رکھتے ہیں‘ اس پر کوئی بولے تو اسے شیعہ یا شیعوں کاہمدرد کہہ کرواصل جہنم کیا جا سکتا ہے۔

تبلیغی جماعت ۔۔۔ کوئی رجسٹرڈ ادارہ یا تنظیم نہیں اس لئے آمدن (اس کے زیرِ اہتمام چلنے والی مساجد جیسے رائےونڈ کا مرکز یا دیگر شہروں میں مرکزی تبلیغی مساجد) کے حساب کتاب کو انفرادی اور مقامی سطح پر رکھا جاتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے مقامی سطح پر مسجد کی کمیٹی بنا کر آمدن و اخراجات کنٹرول کئے جاتے ہیں۔ کمیٹی کا تبلیغی جماعت سے اصل تعلق یہ ہوتا ہے کہ کمیٹی کے ممبران صرف تبلیغی جماعت کے وابستگان ہی ہو سکتے ہیں مگر اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے مسجد پر کنٹرول کے باجود آمدن و اخراجات کی ساری ذمہ داری انفرادی ہو جاتی ہے۔ یعنی مسجد کمیٹی اپنے گوشوارے خود جمع کرانے اور امام مسجد اپنے ٹیکس ریٹرن کا خود ذمہ دار ہے اس لئے جماعت کی سطح پر ٹیکس کی بات ہی کرنا فضول ہے۔دعوت اسلامی اور منہاج القران انٹرنیشنل صرف اس حد تک رجسٹرڈ ادارے ہیں کہ ٹیکس پر چھوٹ کی سہولت بین الاقوامی طور پر حاصل کر سکیں اور فنڈز کی پاکستان منتقلی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ورنہ.... آڈٹ یا انکے سربراہوں یا بورڈ آف ڈائریکٹرز کے گوشوارے‘ مالی تفصیلات۔۔یہ سب انکے نزدیک اہمیت کے قابل نہیں کیونکہ یہ سب’ ون مین شو‘ ہیں۔ کسی مرید میں اتنی ہمت نہیں کہ پوچھے ۔۔حضرت شیخ۔۔ آپ کی کمائی کے کیا ذرائع ہیں ‘ یہ سب کہاں خرچ کیا جاتا ہے‘ آپ کے ذاتی اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں!

شیعہ مکتبہ فکر بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں۔ان کے ذاکرین‘ محرم اور دیگر محافل میںجو کماتے ہیں۔۔۔ ان پر شاید ہی کوئی ذاکر ٹیکس ادا کرتا ہو یا اسے اپنے گوشواروں میں رپورٹ کرتا ہو۔مشہور ذاکر لڈن میاں سے کسی اخبار نویس نے ذرائع آمدن اور ٹیکس ریٹرن کے بارے سوال کیا تو حضرت نے جھڑک دیا۔انکے دینی مدارس کا حال بھی کچھ اسی طرح کا ہے‘ کتنا آیا کہاں گیا‘ کچھ سوال جواب نہیں۔نو دس محرم‘ حلیم شربت‘ سبیل اور چہلم کے لئے ہونے والے اخراجات عموماً چندے سے پورے کئے جاتے ہیں مگر حساب کتاب ندارد! سیاسی میدان میں متحرک شیعہ تحریکیں جیسے جعفریہ تحریک جو کسی زمانے میں فقہ نفاذ تحریک جعفریہ کا حصہ ہوا کرتی تھی۔۔۔کاغذ کی حد تک اپنے ممبران اسمبلی کے ٹیکس ریٹرن کا اہتمام کرتی ہیں کیونکہ یہ سب انہیں الیکشن کمیشن میں جمع کروانا پڑتا ہے۔دوسری سیاسی جماعتوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

اس طویل گفتگو کا خلاصہ بس یہ ہے....وفاقی وزارت مذہبی امور کا اچھا خاصہ بجٹ ہے۔ صوبائی مذہبی امور کی وزارتوں اور اوقاف کا بجٹ بھی کم نہیں۔ مثلاً پنجاب کا پچھلے سال (19-2018)کا اوقاف کا بجٹ ....205 کروڑ روپے تھا جب کے آمدن 178 کروڑ تھی۔ سندھ اور خیبر پختون خواہ کے اوقاف کے بجٹ بھی قریب تر ہیں۔ یہ کوئی معمولی رقوم نہیں جنکا زیادہ حصہ مزارات کی تزئین و آرائش پر خرچ ہوتا ہے۔ملک میں مزاروں پر آنے والے چڑھاوں اور نذر و نیاز کی رقوم بھی قریباً 76 کروڑ سالانہ بن جاتی ہیں۔اسلام آباد میں بری امام کے مزار کی آمدن بھی سالانہ کروڑوں میں ہے۔اسکے علاوہ اسی فنڈز سے صوبائی حکومت نے مدرسہ حقانیہ کو 27 کروڑ امداد کے دیئے تھے۔

اتنی خطیر آمدن کے ساتھ‘ اس کرپٹ ماحول میں جہاں ہر مسلمان وزیر و مشیر سرکاری خزانے میں نقب لگانے کو تیار رہتا ہے.... اگر ہندو کمیونٹی کا مندر....بنانے کے لئے حکومت اجازت اورصرف ایک بار 10 کروڑ دے دینے کا وعدہ کرے ۔۔۔ تو سارے دیندار مسلمان تڑپنے لگتے ہیں‘ آخر کیوں!

اسی حوالے سے ایک لطیف نکتہ اور بھی سن لیں۔ دیوبندی‘ اہل حدیث اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے افراد کے بنیادی عقائد یہ ہے۔۔۔قبروں‘ مزارات اور صاحب قبر کے وسیلوں سے مانگنا شرک ہے جبکہ بریلوی مکتب فکر میں ان بزرگوں اور انکی قبروں کے وسیلے سے دعائیں و منتیں مانگنا اجر و ثواب ہے۔ درست.... جو آپ کا عقیدہ.... لیکن اوقاف کی آمدنی کا بڑا حصہ مزارات کی جائیدادوں سے حاصل ہونے والی آمدن اور ان نذرانوں کا ہوتا ہے جو مزارات پر نقد یا زیوارات یا دیگر اشیاءکی صورت چڑھائے جاتے ہیں۔اسی پیسے سے اوقاف کے تحت چلنے والی (ہر مسلک) کی مساجد کے اخراجات (ائمہ کی تنخواہیں‘ بجلی اور وضو کے پانی کا بل وغیرہ) پورے ہوتے ہیں۔گویا عقیدة ایک کام (قبر پرستی)شرک ہے مگر اس سے حاصل ہونے والی آمدن حلال ہے۔اس کے برعکس جیسے ہی ہندو کمیونٹی کے لئے مندر کی تعمیر اور گرانٹ کی بات ہوئی۔۔۔سب مسلک کے علماءیک زبان ہو کر اسکی مخالفت پر اتر آئے اور دلیل وہی دی....اس تعمیرسے شرک ‘ اسکے ترویج اور اسکے اخراجات گویا شرک کے پھیلاو میں مددگار ہونگے وغیرہ۔ ہندووں میں تو مسلمانوں کی اس چالبازی کو سمجھنے والے کوئی نہیں لیکن اللہ تو علیم و خبیر ہے اور سب دیکھ رہا ہے‘ ذرا اس پر بھی سوچ لیں!

سیاسی پہلو۔۔۔مندر کی تعمیر کے کئی سیاسی پہلو بھی ہیں۔اول تو وزیراعظم عمران خان نے گرانٹ کااعلان کردیا‘ جیسے ہی علماءکا دباو آیا وہ اپنے وعدے سے مکر گئے اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو ہدایت کی کہ مندر کی ابتدائی تعمیر کا کام کوئی بہانہ بنا کر کے روک دیں۔ اس قسم کی چال بازیاں غیر مسلموں میں ۔۔۔مسلمان حکمراں کا اچھا تصور پیش نہیں کرتیں۔کم از کم ہندو برادری یہی کہے گی ۔۔مسلمان اپنے وعدہ کی پابندی نہیں کرتے۔

اس فیصلے کا ایک اور سیاسی پہلو۔۔۔دنیا میں مسلمانوں کا امیج خراب کرنے میں ایسے انتظامی فیصلے بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ایک ارب کے قریب ہندو۔۔۔ہندوستان میں آباد ہیں‘ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں مگر انہیں اپنی عبادت گاہیں بنانے کی آزادی ہے۔مذہبی تعصب اب وہاں بھی نظر آنے لگا ہے۔ اول تو ایسا کوئی فیصلہ بہت سوچ بچار کے بعد کرنا چاہیے‘ تمام طبقات بالخصوص مذہبی طبقات سے مشاورت ضرور کی جانی چاہیے اور پھر جب فیصلہ دنیاکو بتا دیا جائے تو اس پر مضبوطی سے قائم رہنا چاہیے ورنہ ہندوستان کے شدت پرست بھارت کی ہر مسجد کو بابری مسجد بنانے کے لئے اٹھ کھڑے ہونگے۔

اب غیر مسلم یاامریکی و مغربی دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو دیکھیں۔۔۔جہاں مسلمان جس علاقے میں بڑی تعداد میں ہوتے ہیں وہ وہاں مسجد کی تعمیر کی منظوری لیکر کر اپنے مذہبی معاملات ....جمعہ و عید کی نمازوں وغیرہ....کی ادائیگی شروع کر دیتے ہیں۔ اگر مسلم ممالک میں غیر مسلم اپنی عبادت گاہ نہیں بنا سکتے تو لازمی غیر مسلم بھی اپنے ممالک میں یہ سوچنے پر مجبور ہونگے۔۔کیونکر ہم مسلمانوں کو انکی عبادت گاہیں بنانے دیں۔خود سوچیں پاکستانی مذہبی طبقے کی اس سوچ کے کتنے دورس مضمرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔

 گزارش بس ا تنی ہے‘ ہر مسئلہ کا حل فقہ کی کتابوں میں نہیں ڈھونڈنا چاہیے ‘ کچھ باتیں اللہ نے امت کی عقل سلیم پر بھی چھوڑ دی ہیں اسے بروئے کار لاتے ہوئے ۔۔کوئی رائے دیتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ غیر ملکی مصالح و اثرات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔اگر آپ کا ایک عمل کسی خطرناک ردِ عمل کی بنیاد بن سکتا ہے تو سو بار سوچیں۔وزیراعظم پاکستان کو بھی سمجھنا چاہیے.... کسی انتظامی فیصلے کے صادر کرنے سے پہلے اسکے مصالح و مضمرات کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر مشورہ کر لیں اورجب آپ نے کسی کام کی منظوری دی تو بہادروں کی طرح اپنے فیصلے پر قائم رہیں۔

علمی پہلو۔۔۔اس بات کا ایک علمی پہلو بھی ہے‘ اور اصل سوال یہ ہے۔کیا اسلام مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو نئی عبادت گاہیں بنانے کی اجازت دیتا ہے؟آئیں اسکو مختصراً دیکھتے ہیں۔قرآن پاک میں اس بات کی تعلیم دی گئی ہے‘ دوسرے مذاہب کے معبودوں کو برا نہیں کہیں۔حضور ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر صرف حرم کو بتوں سے پاک کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایسا کوئی حکم سیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا جہاں مکہ کے اطراف میں دیگر مذاہب کے عبادت خانوں یا بتوں کو انکے عبادت خانوں میں گرا دینے کی بات کی گئی ہو۔حضرت عمر ؓ نے غیر مسلموں کے عبادت خانوں کی مرمت کروائی اور ذمیوں کے لئے آسانیاں پیدا کیں۔

آجکا علماءکا ایک فتوی زیرِ گردش ہے جس کے مطابق۔۔ مسلمان شہروں میں غیر مسلموں کی نئی عبادت گاہیں بنائیں نہیں جا سکتی۔اسکی تائید جماعت اسلامی و دیگر مذہبی جماعتیں بھی کر رہی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے اس حوالے سے مولانا مودودی ؒ۔۔۔اسلامی ریاست مرتّبہ پروفیسر خورشید صفحہ 611 پر لکھتے ہیں۔۔”امصار مسلمین میں ذمیوں کے جوقدیم معابد ہوں اُن سے تعرض نہیں کیا جاسکتا۔ اگر وہ ٹوٹ جائیں تو انہیں اسی جگہ دوبارہ بنا لینے کا حق ہے۔ لیکن نئے معابد بنانے کا حق نہیں ہے۔(بحوالہ۔بدائع جلد ۷ ص ۴۱۱‘ شرح السیر الکبیر ج ۳ ص ۱۵۲)  رہے وہ مقامات جو امصار مسلمین نہیں ہیں تو ان میں ذمیوں کو نئے معابد بنانے کی بھی عام اجازت ہے۔ اس طرح جو مقامات اب ’مصر‘ نہ رہے ہوں‘ یعنی امام نے انکو ترک کرکے وہاں اقامت جمعہ و اعیاد (عید کی جمع) اور اقامت حدود کا سلسلہ بند کردیا ہو‘ ان میں بھی ذمیوں کو نئے معابد کی تعمیر اور اپنے شعائر کے اظہار کا حق حاصل ہے۔(بحوالہ۔بدائع جلد ۷ ص ۴۱۱‘ شرح السیر الکبیر ج ۳ ص ۷۵۲۔)“

اب ذرا یہ بھی سمجھ لیں یہ ۔۔امصار مسلمین۔۔۔ کونسے شہر ہوتے ہیں۔اسکی تشریح میں مولانا مودودیؒ ۔۔حضرت ابن عباسؓ کا فتوی نقل کرتے ہوئے ‘ لکھتے ہیں۔۔امصار وہ شہر ہیں۔۔۔”جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں ذمیوں کو یہ حق نہیں کہ نئے معابد اور کنائس تعمیر کریں یا ناقوس بجائیں یا علانیہ شراب اور سور کا گوشت بیچیں۔ باقی رہے وہ شہر جو عجمیوں کے آباد کئے ہوئے ہیں اور جنکو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے ہاتھ فتح کیا اور انہوں نے مسلمانوں کے حکم کی اطاعت قبول کر لی تو عجم کے لئے وہی حقوق ہیں جو انکے معاہدے میں طے ہو جائیں اور مسلمانوں پر انکا ادا کرنا لازم ہے۔“ (بحوالہ اسلامی ریاست ص 611)

ان حوالوں سے خود ہی سمجھ لیں۔۔۔پورا پاکستان....پہلے ہندوستان کا حصہ تھا‘ اُسے کسی اسلامی فوج نے فتح ہی نہیں کیا ۔ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں ہندو اور غیر مسلم.... قیام پاکستان سے پہلے بھی رہتے تھے۔ اسی سبب یہاں کوئی ایسا شہر نہیں جسے اسلامی حکومت نے بسایا ہو۔ اسی لئے اگر صرف اس تشریح کو ذہن میں رکھا جائے تو ‘ اس تشریح سے صاف ظاہر ہے یہاں یعنی پاکستان میں.... غیر مسلم اپنی نئی عبادت گاہیں بھی بنا سکتے ہیں۔

یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ ہمیں اپنی قدیم فقہ کی نئے سرے سے تدوین کی بھی ضرورت ہے جو بجائے خود امت مسلمہ اور پاکستان کے مسلمانوںکے لئے بھی ایک پہاڑ سا کام ہے۔
وما علینا الا البلاغ