Saturday, July 4, 2020

نیا تصور دین۔۔۔۔
گزشتہ صدی میں جس چیز نے ہماری مذہبی بنیادیں ہلا دیں ہیں ان میں سب سے اہم چیز ایک نیا تصور دین ہے جو۔۔۔ذاتی سوچ‘ فرقہ ورآنہ تصور‘ مختلف تشریحات دین کی باہمی چپقلش اور ملکی سیاسی و معاشی حالات کی وجہ سے وجود میں آیا ہے مثلاً ۔۔۔۔
پدرم سلطان بود۔۔۔ہم وہ قوم ہیں جنھوں نے صدیوں دنیا پر حکومت کی ہے‘ ہماری مملکت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ‘ ہماری تہذیب سب سے بہتر ہے!
 ایک تصور یہ بھی ہے۔۔۔مکہ پہنچ جاوں‘ بس کعبہ کو دیکھتا رہوں‘ وہیں فنا ہو جاوں....اسی میں میری موت آجائے۔
 ایک تصور یہ بھی ہے۔۔۔ مدینے پہنچ جائیں وہیں مر جائیں‘ آقا ﷺمجھے بلا لو‘ میں مدینے کی خاک بن جاوں۔ (امت مٹ جائے‘ مسلمانوں میں ارتداد و‘ کفر و بے حیائی پھیل جائے‘ مگرمجھے اِس سے کیا۔۔۔مجھے مدینہ سے غرض ہے‘ بس وہیں جاوں مر جاوں خاک مدینہ بن جاوں)
 ایک تصور یہ بھی ہے....بابا صاحب مجھے سب کچھ عطا کرینگے‘ پیر صاحب کی کرامات سب سے اوپر ہیں‘ مجھے کامیاب کروادیں گے! یا صاحب مزار مجھ پر رحم فرمائیں گے میری کشتی پار لگا دینگے۔ اور یہاں کشتی سے مراد دنیاوی کامیابیاں ہیں‘ مجھے وزارت مل جائے گی۔
ایک تصور یہ بھی ہے ۔۔۔ یہ دین و مذہب کا سارا ’کاروبار‘ مولوی کا بنایا ہے‘ اس سے نفرت کرو‘ اس سے دور رہو کامیابی تمھارے قدم چومے گی۔
ایک تصور یہ بھی ہے ....مغرب و امریکہ کو برباد کردو‘ اسلام خود بخود فاتح قرار پائے گا۔ امریکہ میں ہنگامے ہوں وبا پھوٹ پڑے لاکھوں ہزاروں افراد مر جائیں۔۔۔مسلمان پاکستان میں خوش ہوتے ہیں‘ اسے آسمانی کامیابی کی دلیل سمجھتے ہیں‘ گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے ہیں اللہ بیماریوں کو امریکہ کی طرف پھیر دے‘ انہیں مار دے‘ انہیں برباد کردے وغیرہ وغیرہ۔۔۔(صحیح کہا ہے۔۔جو کچھ نہیں کرسکتے وہ صرف بد دعائیں ہی کرسکتے ہیں!)
ایک نیا تصور یہ بھی ہے ۔۔۔۔اسلام میں جو اعمال ناجائز ہیں۔۔۔انہیں ترک کئے بغیر کچھ مذہبی اعمال بھی کرکے عوام کو دکھا دیے جائیں اس سے برائی کا تصور ذرا ہلکا ہو جائے گا۔ اس تصور کی ایک جھلک یہ ہے۔۔” میں ناچ گانوں میں سب سے آگے ہوں بس دعا کریں اب خانہ کعبہ میں اذان کی سعادت مل جائے “یا ” میں فلموں کی بہترین رقاصہ ہوں ‘ مسلمان ہوں اس لئے میری شہرت کے سبب اسلام اور مسلمان بھی ترقی کر رہے ہیں۔“ اس تصورکے پروموٹ کرنے والے فنکار ہیں جو ناچ گانا فلم میوزک کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور یہی انکا ذریعہ معاش ہے جسے چھوڑنا انکے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔کیونکہ اس دور میں فنکار رول ماڈل بن گئے ہیں‘ اس لئے عوام انکی پیروی کو ایمان سمجھتے ہیں ۔جب تک مسلمان فنکار اپنا جاہلی ماضی پوری طرح نہیں چھوڑتے انکے مذہبی اعمال کی تشہیر دراصل انکے خلاف اسلام اعمال کے لئے مددگار ہوتی ہے۔اللہ رسول کی پیروی نہیں کرنی۔۔۔نہ کریں لیکن دین میں ترمیم مت کریں۔یہ بالکل ایسا ہے جیسے اخبارات میں ایک صفحہ پر کعبہ و مدینہ النبی کی تصاویر چھپتی ہیں تو صفحے کی دوسری طرف پورن اداکارہ سنی لیونی کا تفصیلی انٹرویو بھی۔ سلطان جائر ہمیشہ۔۔۔ حجاج‘ مشرف‘ السیسی نہیں ہوتے کبھی کبھی یہ بڑے بڑے صحافی‘ لاکھوں دلوں کی دھڑکن فنکار اور وہ پورامعاشرہ ہوتا ہے جو برائی کو برائی نہیں سمجھتا اور.... سلطان جائر.... کا کردار ادا کرنے لگتا ہے۔
ایک تصور یہ بھی ہے ....میرے فرقے کے سواءسب فرقے کافر ہیں‘ سب جہنمی ہیں! اسی سوچ کو کچھ ترمیم اورتحمل کے ساتھ بعض دینی دعوت کا کام کرنے والوں نے اختیار کیا ہے۔ زبان سے تودوسرے کے خلاف کفر کے فتاوی نہیں بانٹے جاتے البتہ مفہوم یہی ہوتا ہے۔۔۔بس دین کی دعوت جو میں کر رہا ہوں وہی درست اور اسلام ہے باقی سب کچھ خود ساختہ ہے۔بقول مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ.... یہ دین کے دروازے کو چھوٹا بنانے کی کوشش ہے۔
ایک تصور یہ بھی ہے ۔۔۔ یہ دین و مذہب انفرادی مسئلہ ہے اسے اسی دائرے تک محدود رکھو۔خبردار اسے اجتماعیت کی ہوا بھی نہ لگے۔
ایک تصور یہ بھی ہے ۔۔۔ میں تصور شیخ میں گم رہوں‘۔۔۔بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے۔ میری نمازیں میرے روزے۔۔۔میری عبادات‘ ذکر اذکار‘ اللہ ہو کی ضربیں‘ قلب کا جاری ہو جانا۔ اس سے دل کی صفائی ہوتی ہے‘ کاش میں شیخ محی الدین ابن عربی کی پیروی کر جاوں!
ایک تصور یہ بھی ہے ۔۔۔ جو ہو رہا ہے‘ سب غلط ہے اس ختم کرو‘ برباد کر دو۔نئے سرے سے سب کچھ بنایا جائے۔
ایک تصور یہ بھی ہے ۔۔۔ جو میرے دینی تشریح نہیں مانتا اسے زندہ رہنے کا حق نہیں‘ اسکی جان لے لو!
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی