Monday, June 29, 2020



ضروری نہیں آپ ان سب باتوں سے متفق ہوں لیکن یہ تو ممکن ہے آپ تسلیم کریں بلوچستان میں بدامنی کیوں ہو رہی ہے!
ماضی میں بھی خود ساختہ دہشت گردی سے خوب فوائد حاصل کئے جاتے رہے ہیں۔سینکڑوں بچوں کے قتل کے لئے 16دسمبر کا دن چُننا بھی کسی عجوبے سے کم نہیں تھا۔آج کراچی اسٹاک ایکسچینج دہشت گردی واقعہ‘ جس میں واقعہ کے
 فوراً بعد بغیر کسی تحقیق کے بھارتی ایجنسی RAW  اور بلوچ دہشت گرد ملوث ہیں (اورجنکے نام مسنگ پرسن لسٹوں میں موجود ہیں) کا  ڈھنڈورا پیٹنے سے ہماری ایجنسیوں نے جو مقاصد حاصل کئے انہیں سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں:
۱۔مسنگ پرسن کاز کو عوامی نگاہ میں گندا کیا جائے اور ایجنسیوں کی جانب سے اپنے مخالفین کو اغواءکرنا‘ تشدد کرکے انہیں مار دینا ۔۔اس گناہ کے لئے دوسرے صوبوں سے عوامی  حمایت حاصل کی جائے۔
۲۔لاپتہ افراد کے لئے بلوچ خواتین کی کوششوں کو سبوتاژ کیا جائے۔ کچھ ہفتوں سے لاپتہ افراد کی تلاش کے لئے بلوچ خواتین متحرک تھیں۔ پنجاب میں بھی لوگوں میں ہمدردی پیدا ہو رہی تھی۔ یہ بات ہماری ایجنسیوں اور مسنگ افراد پالیسی بنانے والوں کو ناگوار گز ررہی تھی۔ اس واقعہ سے اسکا توڑ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
۳۔فوجی پالیسیوں کے مخالف میڈیا پرسن کی کردار کشی کروائی جائے۔ واقع کے فوراً بعد کچھ صحافیوں جیسے حامد میر عاصمہ شیرازی کی کردار کُشی شروع ہو گئی۔بالخصوص وہ صحافی جو مسنگ پرسن پر حکومت اور فوج کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں‘ انہیں نشانہ بنانا شروع ہوگیا۔
۴۔توجہ دہشت گردی کی طرف کرکے بجٹ پاس کروالیا۔ میڈیا کو حکم ہوا سب ملکر سیکیورٹی گارڈز کی تعریفوں کے پُل باندھیں‘ وہی پولیس والے اور گارڈز جنھیں۔۔مر جائیں۔۔تو یہی میڈیا  جاں بحق یا ہلاک لکھتا تھا۔۔آج ایجنسیوں کے حکم پر تعریفوں کے پہاڑ کھڑے کرنے لگا اوراسی مبارک سلامت واہ واہ۔۔کے شور میں بجٹ پاس کروالیاگیا۔
۵۔ پٹرول قیمیتں بڑھانے پر عوامی ردِ عمل کو کسی اور سمت موڑ دیا جائے یعنی عوامی توجہ کسی اور سمت چلی جائے۔
۶۔صوبہ سندھ میں دہشت گردی کروا کر سندھ حکومت کو وارننگ دی۔صوبے کے وزیراعلی کو پیغام دیا گیا‘ دہشت گردی دوبارہ شروع ہو سکتی ہے‘ ہمارے چُنے ہوئے وزیراعظم کے خلاف زبان و ہاتھ ہولا رکھیں۔
ہماری وزیراعظم صاحب سے اپیل ہے۔۔اصل بہادروں اور شہیدوں کو صرف سلیوٹ نہ کریں۔۔۔بلکہ نظرمیں رکھیں ۔۔فوج ادا کرے یا حکومت۔۔۔ ہر ماہ کروڑوں کے میڈیکل بل مشرف یا درانی جیسے غداروں کے لئے بھی سرکاری خزانے سے جاتا ہے۔اس واقعہ سے وزیراعظم اور میڈیا اتنا سبق تو سیکھے۔۔۔پولیس اور سیکیورٹی گارڈز کے مرنے پر انکے لئے ۔۔۔شہید۔۔ لکھیں اور فوراً انکی مالی امداد کم از کم دو کروڑ روپے انعام کا اعلان کریں!
ہمارے باخبر لوگوں کی بے خبری دیکھیں۔۔سابقہ کور کمانڈر بلوچستان اور موجودہ ۔۔سی پیک کے چیئرمین جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ۔۔2  گارڈز شہید ہوئے ‘ اپنی ٹوئٹ میں انکا نام لینا بھی گوارہ نہیں کیا۔سیکیورٹی گارڈز اور پولیس والوں نے اسٹاک ایکسچینج کے جن کروڑوں کمانے والے سیٹھوں کو بڑی قتل و غارتگری سے بچایا وہ سب لواحقین کو مالی امداد پر گونگے بن گئے۔آرمی چیف اور وزیراعظم سلیوٹ اورخالی خولی الفاظ پر ٹرخا گئے۔ صدر پاکستان نے صرف ٹوئٹر پر شاباشی دی اور وزیراعلی سندھ بھی ڈنڈی مار گئے۔سیکیورٹی ایجنسی نے جسکے گارڈز ملازم تھے‘ اس نے بھی ایک معمولی سی رقم دینے کا وعدہ کیا۔آئی جی نے صرف20 لاکھ کا اعلان۔۔۔4 شہدا ‘ 3 زخمیوں ‘ 2 جوانوں اور ٹیم کے لئے کیا۔گویا2 لاکھ روپے فی کس انسانی جان کی قیمت اور لواحقین کے لئے دائمی عذاب۔ یہ ہے اصل شہیدوں کا مقام اس ملک میں! اس سے کہیں زیادہ تو ہر ماہ ہماری اشرافیہ اپنے پالتو جانوروں اور انکی دیکھ بھال پر خرچ کردیتی ہے!
پس واقعہ اور سوچنے کی بات۔۔۔بلوچستان کے حالیہ بدامنی کی لہر کی کچھ وجوہات ہیں۔2011ءمیں نیو یارک ٹائمز میں دو اور ساتھیوں کی مدد سے مارک مزیٹی۔۔جی ہاں وہی مارک مزیٹی جنھوں نے اپنی کتاب ۔۔ دی وے آف دی نائف۔۔میں جنرل پاشا کی ریمنڈ ڈیوس (امریکی جاسوس) کو چھٹوانے کی لمحہ بہ لمحہ کوششوں کی تفصیل لکھی تھی۔۔۔نے اسٹوری فائل کی۔۔کیسے پاکستانی سفارتکاروں کے بھید میں آئی ایس آئی کے ایجنٹ نیو یارک میں پڑھے لکھے پاکستانی طبقے کو دھمکیاں دینے اور زبان بندی پر مجبور کر رہے ہیں کہ” بلوچستان کے مسئلہ پر کوئی سیمینار یا بحث مباحثہ وغیرہ یونی ورسٹیوں میں منعقد نہ کریں۔“ سی آئی اے کے چیف لیون پنیٹا نے جب یہ بات جنرل پاشا کو تحکمانہ لہجے میں کہی تو۔۔۔دھمکیاں دینے والے پاکستانی سفارت کار.... تسلیم صاحب نیو یارک سے رفو چکر ہو گئے۔
اگر نواب بگٹی کے قتل پر ایک کمیشن بنا کر حقائق پتہ چلائے جاتے تو یہ بھی پتہ لگتا۔۔ڈاکٹر شازیہ کی آبروریزی کس نے کی تھی‘ کیا کوئی فوجی افسر ملوث تھا‘ بگٹی قبائل کی اس باب میں ڈیمانڈ کیا تھیں‘ اصل میں اس وقت وہاں کیا ہوا تھا جب نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کئے جارہے تھے‘ کیسے نواب بگٹی ‘ انکے دو ساتھی‘ ۷ فوجی افسران اور تقریباً ساٹھ فوجی کیونکر جاں بحق ہوئے۔مزاحمتی تحریکیں بلوچستان میں نئی نہیں لیکن بلوچستان کی یہ مزاحمتی تحریک اس دفعہ کیونکر شروع ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے عام پاکستانی عوام میں مسئلہ بلوچستان سے آگہی بڑھتی۔اس وقت کی پاکستانی فوجی قیادت نے یہ سوچ کر۔۔۔اگر کمیشن بنا تو بہت سی نئی باتیں کھلیں گی‘قلات کی شمولیت کن شرائط پر پاکستان کے ساتھ ہوئی تھی ۔۔پر بھی بات ہو گی اورمسئلہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر جائے گا۔۔۔خاموشی اختیار کی اور فائل بند کردی۔ نتیجہ بلوچستان میں محرومیاں بڑھتی گئیں۔
پھر کور کمانڈر بلوچستان کو فری ہینڈ دی گیا۔۔کیسے شدت پسند بلوچوں سے نمٹنا ہے۔بجائے براہ راست بلوچوں سے لڑنے کو۔۔ اول سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کو صوبے میں لایا گیا تاکہ علیحدگی پسندوں سے نمٹا جائے۔دوئم بلوچستان کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں انہی لشکر جھنگوی کے کارکنان سے بم دھماکے کروائے گئے( جنکی آج تک آزادآنہ تحقیقات نہیں ہو سکیں۔) کہ کسی طرح بلوچوں کے زور کو توڑا جائے اور انہیں تقسیم کیا جائے۔بادی النظر میں شیعہ مخالف لشکر جھنگوی کو لانے اور فری ہینڈ دینے کے پیچھے دو مقاصد کارفرما نظر آتے ہیں۔ پہلے تواپنے ہاتھ گندے کئے بغیر‘ پاکستانی مخالف بلوچوں کوٹھکانے لگایا جائے اور دوسرے ایرانی بلوچوں کو لاجسٹک سپورٹ دی جائے تاکہ وہ سیستانی بلوچستان میں ایرانی حکومت کے سنیّوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف لڑ سکیں اور افغانی بلوچ قبائل پر جو ولایت نیمروز سے قندھار تک پھیلے ہیں ان پر بھی نظر رکھ سکیں۔اسکا نتیجہ یہ نکلا ایران ناراض ہوا اور بھارت کی سمت چلا گیا اوراس ڈرامے کا انتہائی سین اس وقت ہوا جب پاکستان نے کلبھوشن کو ایرانی راستے پاکستان آمد پر گرفتار کر لیا اور الزام لگایا ایرانی سرزمین ۔۔پاکستان کے خلاف بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔
اہداف کچھ بھی ہوں۔۔۔ اس سب نے بلوچستان کے مسئلہ کو نہایت گنجلک کر دیا ہے اور اس پر تیسری طرف ہر اُس بلوچ کو اغواءکرکے سیف سینٹروں میں انکی برین واشنگ کی گئی کہ۔۔۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر نہیں لینی۔ بلوچستان ہی نہیں سندھ میں بسنے والے بلوچ اور عام شہری اس اغواءاور حبس بیجا سے اتنا خوفزدہ ہوا کہ وہ لوگ جو۔۔خوش قسمتی سے ایجنسیوں کی تحویل سے واپس آئے یا تو ملک چھوڑ گئے یا زبان سی کر بیٹھ گئے اور کچھ بتانے سے معذوری ظاہر کردی۔
بلوچ لبریشن آرمی ۔۔ ریاست پاکستان سے لڑے والے واحد علیحدگی پسند گروپ نہیں۔ بلوچ مسلح گروپوں میں۔۔۔بلوچ ریپبلکن آرمی‘ یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور لشکر بلوچستان نمایاں تنظیمیں ہیں جنھیں صرف حکومت پاکستان ہی نہیں برطانیہ اور امریکہ بھی دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے۔ جسکی بنیادی وجہ ان گروہوں کا غیر بلوچ عوام کے خلاف نہایت جارحانہ رویہ ہے۔ ہیومن رائٹس واچ گروپ کے مطابق یہ تنظیمیں بلوچستان میں حقوق انسانی کی پامالی میں حد درجے ملوث ہیں جن میں غیر بلوچ عام شہریوں کا قتل عام بھی شامل ہے۔عام شہریوں کے خلاف ہی نہیں یہ تنظیمیں باہم بھی برسرپیکار رہتی اور آپس میں قتل و غارت گری میں ملوث ہوتی ہیں۔انکی اسی انتہا پسندسوچ کی وجہ سے عام بلوچ ان میں شامل نہیں ہوتے۔
2012ءکے گیلپ سروے کے مطابق 67 فیصد بلوچ شہری ایک علیحدہ بلوچستان کے مخالف اور پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ PEW نے بھی2009ءکے سروے میں اس سے ملتی جلتی بات کہی تھی۔ انکے مطابق 58 فیصد بلوچوں نے اپنی شناخت میں پاکستان بتایا یعنی اپنے آپ کی شناخت بحیثیت پاکستانی کروائی۔ کہنا صرف اتنا ہے یہ علیحدگی پسند تنظیمیں تمام بلوچوں کی نمائندگی نہیں کرتیں۔اگر پاکستان کی مختلف سول اور فوجی حکومتیں اپنے ادوارِ حکومت میں بلوچوں کے انسانی حقوق کی پامالی نہیں کرتیں تو شایدان علیحدگی پسند تنظیموں کا وجود ہی باقی نہیں ہوتا۔ہر بڑے ملک و معاشرے میں اختلاف کرنے والے اور شدت پسند موجود ہوتے ہیں‘ اصل امتحان ان سے قانون کے مطابق نمٹنا ہوتا ہے۔ جیسے ہی آپ ماوراءقانون کوئی عمل کرتے ہیں یہی چیزان شدت پسند گروہوں کے لئے بقا و نمود کی ضمانت بن جاتا ہے۔ایسا ہی کچھ ہمارے اس ملک پاکستان میں ہوا ہے!