Sunday, June 28, 2020

دُوہرے معیار۔۔۔
ڈاکٹر نادیہ خان
اگلے زمانوں میں کہا جاتا تھا ہمارے جنازوں میں لوگوں کی شرکت ( یعنی انکی تعداد) ہی بتائے گی ۔۔ہم حق پر تھے یا نہیں!

خیر اب جنازوں میں لوگوں کی تعداد الگ بحث ہے پر سمجھ نہیں آئی ۔۔ ۳  روز قبل تقی عثمانی صاحب نے مفتی نعیم کی نماز جنازہ اسی شہر کراچی میں پڑھائی۔ لیکن تین روز بعد اسی میدان میں جہاں وہ عیدین کی نمازوں کی امامت کرتے ہیں وہیں وہ سابقہ امیر جماعت اسلامی ۔۔۔ سید منور حسن مرحوم۔۔کا جنازہ پڑھنے کی فرصت نہیں نکال سکے۔
عموماً جماعت اسلامی کا طریقہ کار ہے ۔۔۔سابق امیر کا جنازہ۔۔ موجودہ  امیر پڑھاتا ہے ۔مجھے کراچی‘ شہر کا زیادہ پتہ نہیں غالباً یہ وہی (ناظم آباد کا) میدان ہے جس میں مفتی تقی عثمانی صاحب سالانہ نماز عید پڑھاتے ہیں‘لیکن وہ شریک نہیں ہوئے۔کہنا صرف اتنا ہے۔۔۔ ہمارے علماءباتیں اتحاد امت کی کرتے ہیں لیکن غیر مسلک کے سرکردہ افراد یا علماءتک کے جنازوں تک میں شرکت نہیں کرتے۔مفتی تقی عثمانی اگر چاہتے تو وقت نکال کر جنازے میں شرکت کر سکتے تھے خیال یہی ہے وہ جان بوجھ کر نہیں آئے۔
کہنے کو علماءکی شرکت کوئی اہم چیز نہیں لیکن علماءکی عصبیت بہت بڑی چیز ہے۔ مضمون اس سے یہی ہے (خاص کر ہم نئے لوگوں کے لئے)  ہمارے علماء۔۔ہمیں اتحاد کا سبق دیتے ہیں مگر اپنی مصلحتوں کے سبب ایک دوسرے کے جنازوں تک میں شریک نہیں ہوتے۔پہلے میرا صرف یہ خیال تھا لیکن مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں۔۔مولانا مودودیؒ  کی علماءکی جانب سے مخالفت کسی علمی لغزش کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اور صرف مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی پیروی میں تھی۔اور یہ سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے بس ٹی وی اور جدید ذرائع کی وجہ سے اب علماءدوسرے فرقے کی شخصیات کی وفات پر روکھی پھیکی سی تعزیت کر لیتے ہیں۔
دوسری بات ۔۔۔وزیراعظم عمران خان کا رویہ ہے۔پچھلے دور میں جب عمران خان کی پارٹی خیبر پختون خواہ میں حکمران تھی عمران خان۔۔ منور حسن صاحب کے مرید بنے ہوئے تھے۔اس دور میں نجی محفلوں میں فرمایا کرتے تھے۔۔۔”جس پارٹی کا ساتھ منور حسن ایسی شخصیت دے اسے کیسے مفاد پرست کہا جا سکتا ہے۔ “ وقت بدل گیا‘ منور صاحب تو امارت سےسبکدوش ہوئے مگر عمران خان۔۔نادیدہ قوتوں کے سبب وزیراعظم بن گئے۔ جب منور صاحب اسپتال میں داخل اور موت و حیات کی کشمکش میں تھے‘ عمران خان صوبہ سندھ کے دورے پر گئے ‘ اپنی پارٹی کے رہنماووں سے مل کر دعوتیں اڑا کر واپس آ گئے۔ اسپتال جا کر پرانے رفیق کی عیادت کرنا جسکے اخلاق کی خود گواہی دیا کرتے تھے۔۔گویا انکے اپنے اخلاق میں شامل ہی نہیں تھا۔
آخری بات ایم کیو ایم کے عامر خان کی۔۔منور حسن صاحب کے جنازہ میں شرکت تھی۔ امریکہ سے ایک جلاوطن پاکستانی نے جو کراچی میں اسی محلے۔۔۔شادمان ٹاؤن۔۔ میں رہتے تھے جہاں کبھی منور حسن رہائش پذیر تھے ‘بتاتے ہیں‘ 1990-91ء میں جب مہاجر قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی میں کراچی میں کشیدگی عروج پر تھی۔۔ منور حسن کو قتل کرنے کے لئے جو پلاننگ کی گئی تھی شنید یہی ہے اسکے روح رواں اس وقت کے ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان تھے۔ اللہ اکبر۔۔آج وہی عامر خان ....انہی منور حسن کے جنازے میں شریک انکے لئے دعائے مغفرت کر رہے تھے۔بقول شاعر
؎   دیکھو مجھے جو دیدہ ٔعبرت نگاہ ہو