Saturday, July 11, 2020

قائد اعظم‘ مولانا مودودی........اور خواجہ آصف!

ڈاکٹر نادیہ خان

قومی اسمبلی میں اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر ....خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں تقریر اور اس میں قائد اعظم کو نصف صدی پہلے ”مولانا مودودی ؒ کی جانب سے کافر اعظم“ کہنے کے معاملے پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان نے سوشل میڈیا پر خوب دل کی بھڑاس نکالی‘ خواجہ آصف کے خلاف ٹرینڈ بنایا اور لبرل و سیکیولر طبقے کو رگڑا بھی۔
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!

خواجہ آصف کے الزام‘ پاکستان کی مخالفت‘ قائد اعظم پر تنقید اور ملک میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک .... ان سب چیزوں کو حال کے ساتھ ماضی سے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جس کی طرف کسی نے بھی توجہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔اس ضمن میں جو سوالات کھڑے ہو سکتے ہیں وہ یہ ہیں:

٭کیا مولانا مودودیؒ نے قائد اعظم کو .... کافر اعظم کہا تھا یا قائد اعظم پر تنقید نہیں ہو سکتی؟
٭اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پرمذہبی طبقات کیوں اس قدر ناراض ہیں جو پھٹے پڑ رہے ہیں؟
٭کیا پاکستان میں اقلیتوں کو مناسب حقوق مل رہے ہیں؟
٭کیا ملک میں مذہبی اور غیر مذہبی طبقے میں کشمکش بہت بڑھ چکی ہے؟
٭ کیا جماعت اسلامی روایتی مذہبی اور مغربی تعلیم یافتہ طبقات کے درمیان پُل کا کردار ادا کرسکتی ہے؟

اس سے پہلے کے آگے پڑھیں ‘ خواجہ آصف کی شخصیت پر ایک نظر ڈال لیں۔خواجہ آصف کوئی دینی رنما نہیں (جسکے نوکِ زبان سے نکلنے والا ہر جملہ قرآن و حدیث کے اخلاق کا عملی نمونہ ہو) نہ ہی سیاست میں وہ کوئی رول ماڈل ٹائپ لیڈر ہیں۔ ہماری دانست میں انکا دین کا علمی بھی بس ہمارے جیسے ۔۔مغربی تعلیم و تہذیب یافتہ۔۔لوگوں کی طرح واجبی سا ہے۔اس تفصیل کے ساتھ وہ ایک روایتی سیاسی شخصیت ہیں جو موجودہ حالات میں ن لیگ میں اپنی ایسی جگہ بنانے کو کوشش کر رہے ہیں تاکہ مقتدر حلقوں کی نگاہوں میں رہ سکیں‘ اور کوئی بڑا عہدہ لے سکیں۔انکا سیاسی بیک گراونڈ بھی ڈکٹیٹروں کے ساتھ ہی منسلک ہے‘ انکے والد جنرل ضیاءکی قائم کردہ مجلس شوری کے چیئرمین تھے۔ خود انکا سیاست میں داخلہ۔۔۔جنرل ضیاءکی موت کے بعد‘ جنرل حمید گل کی جانب سے چلائی گئی اس سیاسی تحریک سے شروع ہوا جسکابنیادی مقصد بینظیر بھٹو کو1988ء انتخابات میں شکست دلوانا تھا اور جس تحریک کی قیادت اس وقت میاں نواز شریف کے ہاتھوں میں تھی مگر اصل مقتدر قوتیں ہماری جانی پہچانی تھیں۔

اس میں شک نہیں خواجہ صاحب کا الفاظ کا چناو ........ غلط تھا مثلاً جب انہوں نے کہا۔۔کسی مذہب کو دوسرے پر فوقیت نہیں۔۔۔توانہوں نے ہمارے معاشرے کی موجودہ مذہبی ذہنیت اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کردیا جو دوسرے الہامی مذاہب میں ترمیمات اور بگاڑ کو کھول کر بیان کرتا اور ان پرتنقید کرتا ہے۔ہماری دانست میں یہ بات کہتے جو عمومی مفہوم انکے ذہن میں ہو گا وہ یہ ہو سکتا ہے۔۔اس ملک میں غیر مسلم کو بھی حقوق حاصل ہیں۔دوران تقریر انکی اسی بات کی تصحیح غالباً جماعت اسلامی کے مولانا چترالی نے بھی کی جس پر وہ برا مان گئے اور بات کسی اور پیرائے کی طرف چلی گئی اور انکا روئے سخن۔۔مشہور زمانہ جملے کی طرف چلا گیا جس میں کہا جاتا ہے۔۔۔مولانا مودودی نے قائد اعظم کو.... کافر اعظم کہا تھا۔

تاریخی اعتبار سے یہ ثابت ہے کافر اعظم ۔۔۔قائد اعظم محمد علی جناح کومولانا مودودی نے نہیں بلکہ مجلس احرار کے 3  مارچ 1940ءکے دہلی کے جلسے میں مولانا مظہر علی اظہر نے سب سے پہلے کہا بلکہ احرار نے اپنے غصے کا اظہارمجوزہ پاکستان کو۔۔۔پلیدستان کہہ کر کیا۔

مولانا مودودیؒ پر تو یہ الزام غلط ہے لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے ....مولانا مودودی پاکستان بنانے کے سخت مخالف اور اس باب میں وہی نظریہ رکھتے تھے جو اس وقت کانگریسی یا احراری علماءکا تھا اور جو ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے۔لیکن مولانا مودودی نے قائد اعظم کی جو بھی مخالفت کی وہ انکی سیاست‘ پالیسیوں اور اسکے نتیجے میں حاصل ہونے والی ملک کے مستقبل کے نقشے کی بابت تھی۔ کیا وقت نے ثابت نہیں کیا ....پاکستان بنانے کی مخالفت کے جو اسباب تھے‘ وہ بہت سی باتیں آج صحیح ثابت ہو رہی ہیں جب ہم میں اکثر یہ کہتے ہیں۔۔۔پاکستان بنانے کا اصل مقصد فوت ہو گیا۔الزام کھوٹے سکوں کو دیں یا کسی کو بھی ۔۔۔ملک میں فلاحی معاشرے کا قیام‘ عدل و انصاف‘ رواداری‘ بنیادی انسامی حقوق کی پاسداری۔۔۔یہ وہ چیزیں تھیں جنکی بنیاد پر ایک علیحدہ ملک کا تصور پیش کیا گیا تھا جس پردلیلیں (نعرے لگا لگا کر) اسلامی نظام کی دی گئی تھیں جس نظام میں یہ اہداف بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔کیا ہم ستر سالوں میں ان میں سے ایک بھی ہدف حاصل کر سکے‘ مثلاً بنگلہ دیش کے بہاری کیمپوں میں جن لوگوں نے اپنے پاکستانی ہونے کو فخر سے تسلیم کیا‘ آج پاکستان کی مختلف حکومتیں انہیں پاکستان لانے سے گریزاں ہیں۔۔۔یہ ہے سوچنے کی اصل بات!

 الٹا نتیجہ یہ نکلا۔۔۔ہماری اسلامی قومیت پر ہماری تقسیم سے ایک اور کاری ضرب لگی جب ہندوستانی وزیراعظم نے اپنی پارلیمنٹ میں یہ بیان۔۔”آج میں نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔“

اب اس بات پر بھی نظر ڈال لیں .... کیا قائد اعظم کی پالیسیوں پر تنقید نہیں ہو سکتی؟ اصل مسئلہ یہی ہے۔کیا قائد اعظم بہت بڑے مذہبی پیشوا تھے جو تجدید احیاءدین کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تب بھی قائد اعظم انکی سیاست اور پالیسیاں۔۔۔کچھ بھی تنقید سے بالاتر نہیں۔ہمارے ملک میں ماحول ایسا بن گیا ہے اب۔۔قائد اعظم۔۔پیر پیمبر کے درجے پر فائز ہیں اور انکی پالیسیوں پر تنقید حرام سمجھی جاتی ہے۔مختصراً عرض ہے بات صرف اتنی ہے .... قائد اعظم محمد علی جناح ایک اصول پرست ‘ ایماندار اوربے لچک سیاسی لیڈر تھے لیکن انہوں نے یا انکی سیاسی جماعت مسلم لیگ نے مقبولیت کے لئے مذہب کو سیاست میں بھی استعمال کیا۔بر صغیر میں ۔۔پاکستان کا مطلب کیا‘ لا الہ الا اللہ‘ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘ مسلم قومیت کا تصور مسلم لیگ۔۔جیسے نعروں کا مستقبل جانے بغیر۔۔۔قائد نے ان نعروں پرخاموشی اختیار کی‘ پھر کہا ۔۔ پاکستان کا دستور وہی ہو گا جو تیرہ سو سالوں پہلے دیا جا چکا وغیرہ اور قیام کے موقع پر گیارہ اگست والی.... تقریر کر کے پاکستان میں رہ جانے والے سب غیر مسلموں کو تسلی[i] (۱)دی۔یہ گرم و سرد پھونکیں ہمیں قائد کی تقاریر میں کئی جگہ ملتی ہیں۔

قائد اعظم نے بنیاد.... ایک ایسی ریاست کی رکھی جو قومی ریاست تھی یا اس وقت کے معروضی حالات کے سبب جو ملک بنا اور برصغیر کی تقسیم ہوئی ۔۔۔اسکا تصور ٹھیٹ مغربی ریاستوں کا تھا جس میں تمام شہری برابر کے حقدارہوتے ہیں۔قائد اعظم محمد علی جناح کا فہم دین‘ انکی ذاتی زندگی اور انکی سیاست کو دیکھتے ہوئے مولانا اشرف علی تھانوی‘ مولانا مودودی‘ علامہ شبیر احمد عثمانی‘ ظفر احمد انصاری اور سید سلیمان ندوی نے سب سے پہلے اس چیز کو محسوس کیا‘ کوششیں شروع کیں کہ اس نئی مملکت کو اسلامی ریاست کا تصور دے دینا چاہیے ورنہ نتائج وہ نہیں نکلیں گے جو میدان سیاست میں نعرے لگا لگا کر مسلمانوں کو قریب لائے ہیں اور اسلامی ریاست کے مطلوب ہیں۔۔۔۔قرارداد مقاصد‘ اسی ضمن میں ایک کوشش تھی جسکا مطلب‘ ایک قومی ریاست کو اسلامی ریاست کے سانچے میں ڈھالنا۔یعنی کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو سکے گی‘ کوئی غیر مسلم ریاست یا حکومت کا سربراہ نہیں بن سکے گا‘ اقلیت برابر کے شہری[ii](۲) نہیں ہو نگے‘ مذہب ذاتی معاملہ نہیں ہو گا وغیرہ ۔کیونکہ ملک میں مذہبی تشریح کی کوئی ایک سپریم اتھارٹی نہیں تھی اور نہ بنائی گئی ‘ اسی لئے‘ ہر فرقہ اس سے فائدہ اٹھانے اٹھ کھڑا ہوا‘ کوئی اسے سنّی اسٹیٹ بنانے پر بضد ہے تو کوئی بریلوی یا دیوبندی۔ الغرض ہم قومی اسٹیٹ اور اسلامی ریاست کے بیچ لٹک رہے ہیں۔

اس کنفیوژن کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب غیر مسلم ایک قومی ریاست کے تحت پاکستان میں برابری کا حق مانگتے ہیں۔اسلام آباد میں مندر کی تعمیر.... اسی سوچ کا اظہار ہے۔انکی مدد کو مسلمانوں کا مغربی تعلیم یافتہ طبقہ آگے آتا ہے‘ وہ بیرون ملک دیکھتے ہیں کیسے ایک مسلمان یا پاکستانی ترقی کی منازلیں طے کرتا مغربی ممالک میں سیاست میں اپنا مقام بنا لیتا ہے۔اور پاکستان (یعنی انکے اپنے ملک میں یہ ممکن نہیں) اور اسے سسٹم کی خرابی کہہ کررد کردیا جاتا ہے۔بات سسٹم کی خرابی نہیں بلکہ ایسی ہے جیسے پینے کی پانی کی پائپ لائن یا سیوریج کی پائپ لائن کی ہوتی ہے۔ ہیں دونوں پانی مگر ایک صاف دوسرا گندا۔ ایسا لگتا ہے ان تلخ سوالات نے ہمارے مذہبی طبقے کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔

اس تلخی میں اور اضافہ اس وقت ہو جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں پاکستان میں غیر مسلموں کے حقوق کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔وزارت انسانی حقوق کشمیر‘ فلسطین‘ برما اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے لئے خوب ٹوئٹس کرتی ہے لیکن پاکستان میں عیسائیوں کے بد تر حالات‘ سندھ میںہندو لڑکیوں کی زبردستی تبدیلی مذہب یا قادیانیوں کی املاک کی بربادی یا توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال پر خاموش رہتی ہے۔ساری دنیا جہاں کے سامنے سندھ میں ایک مسلک کا پیر علی الاعلان ہندو لڑکیوں کے اغواءاور انکی جبری تبدیلی مذہب ‘ پھر زبردستی شادی کرواتا ہے اور سارے دیندار مسلمان اسکی کمر تھپکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے دیندار طبقہ اگر اس ظلم کے خلاف کوئی قانون سازی کی جائے تو مخالفت میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑ ہوجاتا ہے۔ظاہر ہے یہ چیز مغربی تعلیم یافتہ طبقے کو بالکل پسند نہ آتی ہو گی جس پر انہیں لبرل اور اسلام بیزار قرار دیا جاتا ہے۔

اس طویل تمہید اور پس منظر کے بعد.... خواجہ آصف کا اسمبلی میں بیان دیکھیں اور اس پر جماعت اسلامی کا ردِ عمل.... خوب سمجھ میں آتا ہے‘ ہمارے ملک میں مذہبی اور مغربی تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ایک بات جو مغربی تعلیم یافتہ طبقہ فوراً سمجھ جاتا ہے مذہبی طبقہ اسے سمجھنے میں صدیاں لگا دیتا ہے اور ابتدائی طور پر اسے کفر و اسلام کی جنگ قرار دے دیتا ہے۔اسلام آباد میں مندر کی تعمیر ایک معمول کی کاروائی ہے‘ یہ اعتراض حکومت ....مساجد کو فنڈز نہیں دیتی مندر کو دے رہی ہے‘ کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتا جب ہم دیکھتے ہیں سینکڑوں مساجد و مزارات حکومت کی امداد سے چلتے ہیں۔

دوسری اہم بات۔۔من حیث القوم ۔۔ہمارے اخلاق کا دیوالیہ ہو جانا ہے۔مخالف کی گفتگو سننا تو درکنار ‘ ذرا سی تنقید پر سب سے پہلے مخالف کی کردار کُشی شروع کی جاتی ہے۔جس طرح سے اس تقریر کے بعد جماعت اسلامی کے وابستگان نے سوشل میڈیا پر خواجہ آصف کی کردار کُشی کی۔۔۔اسے دیکھ کر لگتا نہیں کہ کسی دینی و دعوتی جماعت کے کارکنان یہ کچھ کر سکتے ہیں۔جماعت کی نئی نسل کا المیہ یہ ہے وہ اول تو غلط کو غلط کہنے کے بجائے۔۔صحیح کو غلط ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں‘ دوئم انکا رشتہ کتاب‘ مطالعہ‘ فہم و فراست اور تقابلی جائزے سے ٹوٹ گیا ہے اور اب وہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح....کسی جماعتی عصبیت....کا شکاربن گئے ہیں یا  ”رسول خدا کے سوا کسی کو معیار حق نہ بنائے‘ کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلاءنہ ہو .......“  کہنے والے‘ اب ہر اس سیاسی لیڈر کو جسے تراش خراش کر کے ڈاکٹر صفدر محمود ایسے سرکاری درباری مورخوں نے الوہیت کے درجے پر فائز کردیا ہے اسکو معیار حق سمجھنے لگتے ہیں۔کیونکہ یہی پاپولر ووٹ کی ڈیمانڈ ھے۔ممتاز قادری ہو یا اسلام آباد میں مندر کی تعمیر یا سندھ میں ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب کی تبدیلی....نئی جماعت اسلامی کا کارکن ....کسی طالبان‘ لشکر جھنگوی یا سپاہ محمدی کے کارکن سے کم دہشت گرد نہیں رہا۔


اس مضمون کے ایک ہفتے بعد نائب امیر جماعت اسلامی محترم ڈاکٹر معراج الھدی صاحب نے اپنی ایک وڈیو اپلوڈ کی جسکا عنوان یہی تھا۔



اس وڈیو کو دیکھ کر بس یہی کہا جا سکتا ہے…..محترم ڈاکٹر صاحب آپکا چینل دیکھ کر خوشی ہوئی لیکن وڈیو جسے آپکے کارکنان خواجہ آصف کو بطریق غسل شرعی  دفعہ دیکھنے کا تقاضہ کر رہے آدھی صحیح اور باقی غلط تاریخ ہے۔ یہ درست ہے مولانا مودودی نے قائداعظم کو کافر اعظم نہیں کہا لیکن تاریخی اعتبار سے یہ بالکل غلط ہے مولانا قیام پاکستان کے حامی تھے۔ غالباً کارکنان کی ذہن سازی کے لئے اب یہ سوچ ہے مگر حقیقت یہی ہے مولانا قیام پاکستان کے1946ءتک کٹر مخالف تھے جو کوئی برائی نہیں۔مگر جو کچھ جماعت نے سوشل میڈیا پر خواجہ صاحب کے ساتھ کیا اسے دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے جماعت کے کارکنان اب کسی فاشسٹ تنظیم کے کارکنان سے کم نہیں!

آپ جماعت اسلامی کے ذمہ دار ہو کر بھی مولانا کے یہ الفاظ نہیں مانیں گے لیکن میں جماعتی نہیں مگر ان سے متفقہ ہوں۔ قائد اعظم کی دینی سطح کو دیکھتے ہوئے علماءبشمول مولانا نے پاکستان کو اسلام کی راہ پر ڈالنے کی کوششیں کی۔یہ علیحدہ سوال ہے مولانا اور جماعت نے قائد اعظم کی غائبانہ نماز جنازہ تک نہیں پڑھی۔


موجودہ ملکی حالات میں یہ بحث وقت کا ضیاع ہے مگر افسوس جب تاریخ مسخ کی جانے لگے تو جواب دینا پڑتا ہے۔ ویسے بھی اب جماعت کو دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح مسائل کا سامنا ہے جیسے انتخاب امیر میں دھاندلی‘مندر کی تعمیر‘ پاپولرازم‘ صوبہ سرحد کی سابقہ حکومت میں کردار یااقتدار کا حصول!

٭٭٭


[i]  ۱۔۔تاریخ سے یہ ثابت ہے اس سیاسی گہما گہمی نے اُس وقت کے برصغیر کا ماحول بہت حد تک گرما دیا تھا۔ کانگریس نے مسلم لیگ کے اس تصور کی مخالفت کی نتیجتاً دونوں سیاسی جماعتوں کے نظریاتی اختلافات سے ہزاروں مہاجرین فسادات کی بھینٹ چڑھ گئے۔اسکو یوں سمجھ لیں1984ءتا 2008ءتک کراچی شہر میں جماعت اسلامی اور مہاجر قومی موومنٹ کے نظریاتی اختلافات نے سینکڑوں مہاجر نوجوانوں کی جان لے لی۔

[ii]  ۲۔۔اسلامی ریاست میں جو ذمی ہوتے ہیں وہ در حقیقت برابر کے شہری نہیں ہوتے‘ انہیں کچھ حقوق تو حاصل ہوتے ہیں مثلاً اپنے مذہب کی پیروی‘ عبادت‘ شادی بیاہ کی رسومات کی ادائیگی وغیرہ۔ مگر وہ (اسلامی ریاست میں) اپنی جان کے بچ جانے کے عوض جزیہ دیتے ہیں جسکا موجودہ ٹیکسوں کے نظام سے کوئی تعلق نہیں۔جزیہ صرف اس غیر مسلم پر عائد ہوتا ہے جو اسلام قبول نہ کرے مگر اپنے مذہب کے ساتھ اسلامی ریاست میں رہنا چاہے!