Sunday, July 12, 2020

توہین رسالت قانون  ۔۔کس کی تخلیق ہے !
ڈاکٹر نادیہ خان

To Read this Article in PDF, click here

ہم افراط و تفریط کا شکار قوم ہیں‘ جس سے محبت کرتے ہیں اسے دیوتا اور اوتار بنا لیتے ہیں‘ اسکی ایسی ایسی صفات تراشتے ہیں جو صرف خدا کے لئے مخصوص ہیں اور جس سے نفرت کرتے ہیں اسے شیطان بنا دیتے ہیں اور اسکے قتل کو بھی جائز قرار دیکر اسے قتل کرنے لگتے ہیں۔
اس دور میں قاتل فخر سے وکٹری کا نشان بنا کر کہتے ہیں ....وہ فلاں کو میں نے قتل کردیا ہے اس لئے وہ میرے مسلک‘میری تشریح دین اور میری مذہبی سوچ کے خلاف تھا وغیرہ وغیرہ۔(الجزیرہ ویب سائٹ 21 مارچ 2019ء۔۔مشال خان کا قتل 13اپریل 2017ءاور 31 میں سے 26 مجرموں کی رہائی ۔ صرف تحریک انصاف کے ضلعی رہنما عارف خان کو عمر قید کی سزا ہوئی‘ باقی سارا ہجوم رہا ہو گیا۔)

ہمارے ملک میں بگاڑ اس وقت آتا ہے جب لوگ اسلام کی تشریح اپنے سیاسی مقاصد کے لئے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اسکی بہترین مثال جنرل ضیاءکا دور حکومت ہے۔جنرل صاحب نے اقتدار چھینا تھا اور وہ اسے منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے پر تیار نہ تھے۔دینی طبقات کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور انتخابات کو ملتوی کروانے کے لئے جنرل صاحب کو عوام کے نازک جذبات سے کھیلنا تھا۔دیوبندی و اہل حدیث مسلک کے علماءاور جماعت اسلامی کی قیادت کو وہ....جہاد افغانستان.... کے نام پر اپنے ساتھ ملا چکے تھے ‘ یہ تمام افراد جنرل صاحب کی ذاتی اسلامیت کے اس درجے گرویدہ تھے انکے خلاف ایک لفظ سننا بھی انہیں گوارہ نہیں تھا۔مولانا ابوالحسن علی ندویؒ 1978ءمیں پاکستان تشریف لائے‘ اپنی آبیتی....کاروان زندگی جلددوئم (ص268-9) پر لکھتے ہیں....” لاہور آ کر وہاں مولانا سید ابوالاعلی مودودی بانی جماعت اسلامی سے انکی بین الاقوامی شخصیت اور ان قدیم روابط کی بناءپر جو ہم دونوں کے درمیان تھے‘ نہ ملنا میرے مزاج کے خلاف تھا ‘الخ............گفتگو میں جنرل ضیاءالحق صاحب کا ذکر آیا‘ مولانا نے کہا انکو کسی طرح ناکام نہیں ہونے دینا چاہیے۔

جنرل صاحب کے نزدیک ....بریلوی مکتب فکر کو ساتھ ملانا ضروری تھا۔جنرل صاحب کو معلوم تھا یا غالباً انکی ایجنسیوں کا مشاہدہ و رپورٹ کہ بریلوی حضرات.... رسول اللہ ﷺ کی بابت کسی حد تک غلو کے قائل ہیں اگر اس نازک عنوان (ختم نبوت یا توہین رسالت) کو چھیڑا جائے تو اس بڑے طبقے کی توجہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بجائے کسی اور طرف ہو جائے گی۔بحیثیت جونئیرفوجی افسر کے وہ قادیانیت کے خلاف مظاہرے اور نکی شدت دیکھ چکے تھے۔اہل قادیان کی اس فاش غلطی (دعوی نبوت۔۔جس کے خلاف سارے علماءیک زبان تھے) کو انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے خوب استعمال کیا۔(اس قسم کی دوسری کوشش جنرل صاحب نے کراچی میں مہاجر کاز کو پروموٹ کرکے جماعت اسلامی کے مہاجر طبقے اور ایم کیو ایم کی تشکیل اور انکے درمیان چپقلش کی بنیاد رکھتے ہوئے کی جب انہوں نے ایک دفعہ اثناءتقریر سینے پر ہاتھ مار کر اور روسٹرم پر۔۔میں بھی تو مہاجر ہوں۔۔۔کہ کر الطاف حسین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہی! ( بحوالہ تقریر صدر پاکستان جنرل محمد ضیاءالحق‘ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ 7جون 1983ءکراچی)

اس مقصد کے لئے انہوں نے قادیانیوں کے حوالے سے پینل کوڈ میں تبدیلیاں بذریعہ آرڈیننس متعارف کروائیں۔1974ءکی آئینی ترمیم میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا ‘ پینل کوڈ کی تبدیلیاں جنرل ضیاءنے دس سال بعدآرڈینینس کے ذریعے 26 اپریل 1984ءمیں اس وقت عوام کے جذبات موڑنے کے لئے کیں جب ان پر انتخابات کروانے اور اقتدار چھوڑنے کے لئے سیاسی دباو بڑھ گیا تھا اورجس پرانکے محبوب عالم ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم تک نے ایسی تشریح پرساتھ دینے سے انکار کردیا تھا (کاروائی مجلس شوری۔ 1984ءتقریر ڈاکٹر اسرار احمد۔ قومی اسمبلی مطبوعات برائے شوری کاروائی ‘ 7 جنوری1984ء ‘ پاکستان )۔ مثلاً جیسے ہی کوئی آپ کو سلام کرے آپ اس سے اسکا فرقہ پوچھیں اگر وہ کہے قادیانی تو آپ اسکے خلاف پرچہ درج کروادیں یا اگر کوئی قرآن یا کلمہ پڑھتا نظر آئے تو اس سے اسکا فرقہ پوچھیں جیسے ہی وہ کہے قادیانی آپ اسے جیل بھجوادیںیا کسی قبر پر کلمہ لکھا نظر آئے تو مرنے والے کی تحقیق کر و قادیانی ہونے پراسے مسمار کردو!

جنرل ضیاءکی سیاسی چالبازیوں کو اسلام کا لبادہ اڑھانے سے انکے محبوب عالم ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے انکار کے بعد جنرل صاحب نے ایک اس وقت کے ایک نوجوان اورا بھرتے ہوئے اسکالر.... ڈاکٹر طاہر القادری کو استعمال کیا (یاد رہے اس وقت ڈاکٹر اسرار احمد کے ٹی وی پروگرام۔۔ الہدی۔۔ کو بند ہونے کے بعد طاہر القادری کو ٹی وی پر درس قرآن پیش کرنے کے لئے منتخب کیا گیا تھا اور یہ سب اتنی جلدی میں کیا گیا کہ واقفانِ حال بتاتے ہیں پہلے چند پروگراموں تک قادری صاحب اس وقت کلین شیو مفسر قرآن تھے۔) خود قادری صاحب کی یو ٹیوب پر پچیس منٹ کی ایک قدیم وڈیو موجود ہے جس میں وہ فرما رہے ہیں کیسے انہوں نے 80ءکی دھائی میں جنرل ضیاءکی قائم کردہ شریعت عدالت میں اٹھارہ گھنٹوں تک دو ججوں۔۔جسٹس پیر کرم علی شاہ اورجسٹس مفتی شجاعت علی قادری کے سامنے۔۔توہین رسالت اور اسکی متفرق شقوں مثلاً 298۔۔ اے بی سی۔۔ کے دفاع میں دلال دیے۔ان دلائل کی علمیت پر تو آگے چل کر بات کرینگے لیکن یہاں یہ بتانا مقصود ہے کیسے قادری صاحب نے توہین رسالت کا موجودہ قانون ترتیب دیا اور اسکے پیچھے کیا عوامل کار فرما تھے۔اسی وڈیو میں وہ خود اپنے مسلک کے مخالفین کو للکارتے ہوئے فرماتے ہیں.... توہین رسالت کے اس قانون کے اصل خالق وہی ہیں۔۔۔اور کیسے کچھ مفتی صاحبان نے عدالتی کاروائی میں رخنہ ڈال کر انکے دلائل کو کاونٹر کرنے اور انہیں خلاف اسلام اور فقہ حنفی کے خلاف ثابت کرنے کی کوششیں کی تھیں۔آخیر میں شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔انکی ساری کوششوں کو جنرل ضیاءنے ہائی جیک کیا اور اس مسودہ قانون کو بطور ایکٹ آف پارلیمنٹ کے طور پر پیش کروا کر سارا کریڈٹ اپنے سر لے لیا۔

 گویا جو ہم نے اوپر لکھا۔۔۔ توہین رسالت کا قانون جنرل صاحب کی سیاسی چالبازی تھا اور اس میں قادری صاحب برابر کے شریک تھے.... والی بات کو خود قادری صاحب درست کہہ رہے ہیں۔ یہ وڈیو اس ایڈریس پر موجود ہے اور دیکھنے کے قابل ہے۔

اب اللہ کا انصاف دیکھیں۔۔مرور زمانہ سے قادری صاحب80ءکی دہائی سے جب وہ حکمرانوں کے نظروں میں آنا چاہ رہے تھے اور اپنا حلقہ وسیع کر کے مالی فوائد سمیٹنا چاہ رہے تھے‘ یہ سب حاصل کرنے کے بعد۔۔۔ڈھلتی عمر میں کینیڈا کی شہریت حاصل کرکے‘ پرسکون زندگی گزار رہے تھے اور تب تک توہین رسالت کا قانون پاکستان میں اپنی اپنی جڑیں بنا چکا تھا....اچانک ڈنمارک میں ایک کانفرنس میں ایک ڈینش صحافی نے قادری صاحب سے سوال پوچھ لیا۔۔”کیا آپ پاکستانی توہین رسالت قانون کے خالق ہیں؟“ قادری صاحب کا جواب سننے سے تعلق رکھتا ہے جو یو ٹیوب پر موجود ہے (امید ہے پی اے ٹی کے کارکنان اسے ڈیلیٹ کرنے کی کوششیں کریں) اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں قادری صاحب۔۔۔سوال کے جواب میں گھبرا کر پہلے فرماتے ہیں۔۔”گڈ کوئسچن۔۔“ اور پھر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے فرماتے ہیں۔۔”میرا اس قانون سے کیا لینا دینا۔۔میں تو جانتا تک نہیں‘ اسے کس نے تخلیق کیا بلکہ یہ سب جنرل ضیاءکا کیا دھرا ہے میرا اس سے کوئی تعلق نہیں!“ جھوٹ کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے‘فاعتبروا یا اولی الباب
(https://www.youtube.com/watch?v=a3NKJFbAmXo&feature=youtu.be)

اطلاعاً عرض ہے قادری صاحب کی ٹیم نے یہ وڈیو یو ٹیوب سے بڑی کوششوں کے بعد ڈلیٹ کروادی ہے اور اسکی جگہ ایک نئی تبدیل شدہ وڈیو ڈال دی ہے جو عذرِ گناہ بد تر از گناہ باشد کی مصداق ہے
ان دو وڈیوز سے قادری صاحب کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے‘ کینیڈین شہریت کی حساسیت کے سبب وہ اپنے ہی تخلیق کردہ توہین رسالت کے قانون سے علیحدگی کا اظہار فرما رہے ہیں اور اس سے ۔۔انہی کی زبانی۔۔۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ بالا قانون جنرل ضیاءکی ایک چالبازی تھا تا کہ عوام کو حساس موضوعات پر لگا کر اپنا الو سیدھا کیا جائے۔۔۔یعنی اپنی غیر قانونی حکومت کو طول دیا جائے۔

اب ذرا اس قانون کی علمی تحلیل خود قادری صاحب کی زبانی سن لیں۔پہلی وڈیو میں فرماتے ہیں۔۔۔”وفاقی شرعی عدالت کے روبرو میں نے جو موقف اختیار کیا۔۔۔وہ امام شافعی جنبلؒ اور مالکؒ کے موقف کا مجموعہ تھا یعنی توہین رسالت کے مرتکب شخص کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت مسلم ہو یا غیر مسلم۔۔۔فی الفور قتل کیا جائے گا۔ آگے چل کر فرماتے ہیں امام ابو حنیفہؒ اور متاخرین حنفیہ کا موقف اسکے بالکل برعکس ہے وہ اسے ارتداد سمجھتے ہیں اور مجرم کو توبہ کا موقع دینا چاہتے ہیں اور اگر مجرم توبہ کرے تو اسے فی الفور چھوڑ دیا جائے گا۔ میں نے سخت موقف اس لئے اختیار کیا کہ میں ہر دروازے کو بند کرنا چاہتا تھا۔پھر وہ (ابو حنیفہؒ) مرد و عورت میں فرق کرتے ہیں اور عورت کے قتل کے قائل نہیں۔ ساتھ میں وہ مسلم و غیر مسلم کا فرق بھی کرتے ہیں اور توہین رسالت کی سزا غیر مسلم پر جاری کرنے کے حق میں نہیں۔“(مذکورہ بالا وڈیو)

اب آپ خود فیصلہ کر لیں‘ پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت امام ابو حنیفہؒ کے فقہ کی پیروکار ہے مگر قادری صاحب....اپنی یااپنے مسلک کی دھاک بٹھانے یا اس سے مستقبل میں سیاسی فوائد اٹھانے کے لئے ایک ایسی سزا تجویز کر رہے تھے جو قدیم روایتی فقہ سے مناسبت بھی نہیں رکھتی بلکہ مختلف ائمہ کے اقوال کا ملغوبہ تھی۔یہاں پر ایک نکتہ اور بھی نوٹ کرلیں‘ شروع ہی سے طاہر القادری صاحب کے مزاج میں حدت و شدت رہی ہے جسکا مشاہدہ پاکستانی عوام نے اکثر کیا ہے.... کبھی انکے دھرنے تو کبھی انکے مواعظ میں۔ یہی چیز انکے تجویز کردہ قانون میں بھی نظر آتی ہے۔ہماری ڈاکٹر قادری سے گزارش ہے اب جس ملک کے وہ شہری ہیں اسکا چارٹر اسی بات کا ضامن ہے کہ ہر شخص کو مذہبی آزادی میسر ہو‘ وہ اس حلف کی ہی لاج رکھیں جسے لیکر وہ نئے شہری بنے ہیں!

یہ درست ہے۔۔۔اسلام کی آمد گزشتہ ادیان کی تصحیح اور ان میں ان باطل افکار کی نشاندہی ہے جس سے وہ راہ راست سے بھٹک گئے تھے لیکن اسکا ہرگز مقصود یہ نہیں۔۔۔غیر مسلموں کا خاتمہ کردیا جائے یا مسلم ملکوں میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہ غیر مسلم افراد کو تہہ تیغ کردیں۔اگر اسلام دوسرے ادیان کی برداشت کا قائل نہ ہوتا تو اس میں ذمیوں کا تصور ہی سرے سے نہ ہوتا اور فتوحات کے بعد غیر مسلموں کا قتل لازم ہوتا۔۔۔لیکن ایسا نہیں!
٭٭٭