Friday, July 17, 2020

”یہی ہمارا مندر اور یہی ہماری پوجا تھی!“
14 اگست 1923ءکو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے کلدیپ نیئر 23 اگست 2018ءکو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ انکی اپنی جنم بھومی سے محبت کی انتہا یہ تھی کہ مرنے کے بعد اپنی راکھ لاہور کے دریا ئے راوی میں بہا دینے کی وصیت کی جس پروصیت کے مطابق عمل کیا گیا۔


کلدیپ نیئر بھارت کے نامور صحافی تھے‘ 1947ءمیں ان کی عمر 24 سال تھی ان کے والد ڈاکٹر تھے اور سیالکوٹ میں پریکٹس کرتے تھے‘ قیام پاکستان کے وقت قائداعظم محمد علی جناح نے اقلیتوں کو مساوی حقوق دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ کلدیپ نیئر کا خاندان پاکستان میں ہی رہنا چاہتا تھا مگر بھارت کی تقسیم کے بعد اچانک فسادات پھوٹ پڑے اور کلدیپ نیئر کے خاندان کو اپنا سب کچھ سیالکوٹ میں چھوڑ کر دہلی جانا پڑا۔ کلدیپ نے اپنی نئی کتاب ”A Tale of Two Cities“.... ”دوشہروں کی کہانی“ میں سیالکوٹ سے دہلی تک کے سفر کی روداد بیان کی ہے جو دلچسپ بھی ہے اور چشم کشا بھی ہے۔ کلدیپ نیئرلکھتے ہیں:

”میں سیالکوٹ سے جانا نہیں چاہتا تھا سیالکوٹ میرا گھر تھا اور جہاں پر میں پیدا ہوا اور پروان چڑھا تھا میں نے اس شہر میں زندگی کی 24بہاریں گزاری تھیں میرے بچپن کے دوست اس شہر میں رہتے تھے۔ اگر بھارت میں کروڑوں مسلمان ہندووں کے ساتھ رہ سکتے تھے تو ایک ہندو خاندان پاکستان کی اسلامی ریاست میں کیوں نہیں رہ سکتا تھا۔

یہ درست ہے کہ بھارت مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوا تھا مگر کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے آبادی کی منتقلی کی مخالفت کی تھی لوگ اپنے اپنے شہروں میں رہ سکتے تھے 1947ءمیں مجھے سیالکوٹ میں ناپسند کیوں کیا گیا جہاں پر میرے آباو اجداد صدیوں سے قیام پذیر رہے تھے۔میرے والد کے مریض مسلمان تھے اس لیے بھی ہم سیالکوٹ میں ہی رہنا چاہتے تھے۔ میرا بہترین دوست.... شفقت تھا جس سے محبت کے اظہار کی وجہ سے میں نے اپنے بازو پر ....چاند ستارے کا اسلامی نشان کندہ کرایا ہوا تھا میں نے فارسی میں گریجویشن کی ہوئی تھی حکومت پاکستان نے اردو کو سرکاری زبان قرار دے رکھا تھا اردو میری پسندیدہ زبان تھی ہماری کافی جائیداد تھی اور نوکر چاکر تھے۔

اگر ہم ہجرت پر مجبور ہوتے تو ہم کہاں جاسکتے تھے ہمارے پیر کی قبر بھی ہمارے گھر کے عقب میں تھی ہمارے خاندان کو کوئی مشکل پڑتی تو یہ پیر ہماری رہنمائی کرتے ہم اپنے پیر کو کیسے چھوڑ سکتے تھے پیر کی قبر ہماری پناہ گاہ تھی ہمیں وہاں روحانی سکون ملتا تھا میری ماں جب بھی میرے باپ سے جھگڑ پڑتی ....وہ سکون کیلئے پیر کی قبر پر چلی جاتی۔ ہم تین بھائی اور ایک بہن ہر جمعرات کو پیر کی قبر پر عقیدت سے اپنا سر جھکاتے اور دیئے روشن کرتے۔ یہی ہمارا مندر تھا‘ یہی ہماری پوجا تھی۔

 سیالکوٹ کے باسی سادہ، نرم دل اور برداشت کرنے والے تھے۔ وہ ایک مختلف سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے مذہب کی بنیاد پر ہمارے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا سیالکوٹ میں ستر فیصد مسلمان اور تیس فیصد ہندو اور سکھ تھے جہاں تک مجھے یاد ہے ہم کبھی آپس میں تلخ بھی نہیں ہوئے تھے۔ہم مشترکہ طور پر عید، دیوالی اور ہولی مناتے تھے۔ محرم میں ہم سب ماتم کرتے ہمارے کاروبار مشترک تھے ہندو مسلمان اکٹھے مزدوری کرتے۔

 تحریک پاکستان کے عروج کے زمانے میں بھی سیالکوٹ ٹینشن (کشیدگی) سے محفوظ رہا کاروبار معمول کے مطابق چلتا رہا۔ سیالکوٹ میں مسلم لیگ اور کانگریس نے چند جلوس نکالے تھے پاکستان کا اعلان ہوتے ہی ہم سب نے خوشی منائی خوشیاں اس وقت ماند پڑنے لگیں جب مسلمان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آنے لگے البتہ کشیدگی پھر بھی پیدا نہ ہوئی ہم سب پنجابی بولتے تھے۔

ایک دن ہم لنچ کر رہے تھے کہ محلے میں سراسیمگی پھیل گئی اور ہمیں اپنا سب کچھ چھوڑ کر سیالکوٹ سے رخصت ہونا پڑا دوپہر کے بعد ہماری جیپ لاہور پہنچی لاہور کے مضافات میں ہمیں رکنا پڑا ہمیں بتایا گیا کہ امرتسر میں مسلمانوں کے قافلے پر حملہ ہو گیا ہے اور لاہور میں مسلمان سڑکوں پر کھڑے ہیں تاکہ انتقام لے سکیں ہم جیپ سے نیچے اتر گئے اور خوف سے خاموش کھڑے رہے اللہ اکبر، یاعلی مدد، پاکستان زندہ باد کے نعروں کی آوازیں آر ہی تھیں۔

جب ہم سرحد پر پہنچے تو ”بھارت ماتا کی جے“ کے نعرے سنے ہم خوش تھے کہ زندہ سرحد عبور کر سکے۔ میں نے دوسری جانب سے کچھ لوگوں کو آتے ہوئے دیکھا وہ مسلمان تھے ان کے چہروں پر بھی اذیت کے تاثرات تھے انہوں نے اپنا سامان سروں پر اٹھا رکھا تھا اور ان کے بچے سہمے ہوئے ان کے ساتھ چل رے تھے وہ بھی اپنے گھر، دوست اور امیدیں چھوڑ کر پاکستان آئے تھے ہم نے پاکستان کی جانب آنے والے کارواں کے لئے راستہ چھوڑ دیا ہم رک گئے وہ بھی رک گئے مگر کسی نے کوئی بات نہ کی۔ ہم نے ایک دوسرے کو خوف سے نہیں ہمدردی کی نظروں سے دیکھا ہم دونوں مہاجر تھے دونوں کے زخم، نقصان اور مجبوریاں مشترکہ تھیں۔

 امرتسر ریلوے سٹیشن مہاجروں سے بھرا پڑا تھا جو ٹرین آتی فوری طور پر مسافروں سے بھر جاتی۔ مجھے دہلی کی ٹرین میں گھسنے کے لیے پوری طاقت استعمال کرنا پڑی میرے بازو پر کندہ چاندتارے کا اسلامی نشان نظر آنے لگا میری شناخت کے بارے میں کھسر پھسر ہونے لگی کیا یہ مسلمان ہے ایک نے گالی دیتے ہوئے کہا؟

 اسلامی نشان نے گاڑی کے ڈبے میں موجود مسافروں کو میرے مسلمان ہونے کا یقین دلا دیا۔ مجھے لدھیانہ سٹیشن پر گاڑی سے باہر نکال لیا گیا۔

 اتفاق سے سیالکوٹ کے اکثر ہندو لدھیانہ منتقل ہو رہے تھے سکھ تلواریں اور خنجر ہاتھ میں لیے میرے اردگرد جمع ہو گئے مجھے کہا گیا کہ میں ثابت کروں کہ میں ہندو ہوں۔ ان کی آنکھوں میں خون تھا قبل اس کے کہ میں اپنی پتلون اتار کر اپنے ہندو ہونے کا ثبوت پیش کرتا میرے محلے کا ایک حلوائی میری جان بچانے کے لئے آگے آیا۔ اس نے چیختے ہوئے کہا کہ میں ڈاکٹر گُر بخش سنگھ نائر کا بیٹا ہوں ایک اورشخص نے تصدیق کی اور ہجوم منشتر ہو گیا ۔میری جان بچ گئی اور میں دہلی پہنچ گیا ۔