Tuesday, June 8, 2021

 

مولانا وحید الدین خان مرحوم اور جناب جاوید احمد غامدی صاحب 

مولانا وحید الدین خان مرحوم اور جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے افکار سمجھنے کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام کا مزاج کیا ہے‘ اور یہ بات سمجھ میں آتی ہے ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا مودودی مرحوم کے اختلافات کی نوعیت جان کر۔اس اختلاف کی بنیاد صرف اتنی ہے مولانا مودودی مسلم معاشرے میں انقلاب بذریعہ ووٹ کے قائل یعنی انتخابات کو اس کی بنیاد سمجھتے تھے جبکہ ڈاکٹر اسرار اسلامی انقلاب لانا چاہتے تھے۔۔۔لیکن ڈاکٹر صاحب مرحوم کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا‘ اسلامی انقلاب اس فرقوں میں بٹے اسلامی معاشرے میں آئے گا کیسے!

غیر مسلم معاشروں میں مسلمان عموماً اقلیتی کردار کی وجہ سے کمزور ہوتے ہیں اسی لئے اکثریت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں۔لیکن مسلم معاشروں میں اسلامی معاشرہ بنانے میں بھی ہمارے علماء کرام نے کوئی خاص محنت نہیں کی۔ بلکہ اسلام کے سیاسی کردار کا تصور سید احمد شہید اور دور حاضر میں مولانا مودودی نے دیا ورنہ مولانا حسین احمد مدنی جیسے جیّد علماء توبرصغیر(میں آنے والے جمہوری دور میں اکثریتی ہندو آبادی کے ساتھ) اسلامی خلافت کے احیاء کا خواب دیکھا کرتے تھے۔ اس سے ……نرگسیت اور سوچ کا اندازہ لگا لیں۔برصغیر میں اکثریتی کلچر نے علماء کا یہ حال کردیا تھا‘ شاہ ولی اللہ جیسے مفسر کے گھر میں‘ جب بیٹوں کو سلام کرنا ہوتا تو ہندوؤں کی طرح جُھک جھک کر تسلیم بجا لاتے تھے۔وہ تو سید احمد نامی ایک لڑکا آیا جس نے انہیں مسنون سلام کیا تو شاہ صاحب کو محسوس ہوا۔۔کیا حال ہو گیا ہے!بس یہی کیفیت آج تک چل رہی ہے‘ لکیر پیٹنے کی! مثلاً مولانا مدنی اگر اپنے ہی رسالہ الجمعیۃ کے نوجوان ایڈیٹر سید مودودی کی متعصبانہ مخالفت نہ کرتے تو شاید آج سارا دیوبندی طبقہ۔۔ آمنا صدّقنا کہہ کر جماعت اسلامی کو ووٹ دیتا‘ مفتی تقی عثمانی …… منور حسن مرحوم کا جنازہ پڑھاتے۔جماعت اسلامی کی مخالفت‘ بس ایک بھیڑ چال ہے جو سب چل رہے ہیں!

اس مثال سے آپ سمجھ سکتے ہیں ہمارے علماء کا فکری معیار کیا ہے! وحید الدین خان مرحوم یا جاوید احمد غامدی صاحب کے افکار اس لئے جدید طبقے کو قابل قبول ہیں کیونکہ وہ مزاحمت یا مخالفت کے قائل نہیں۔غیر مسلم معاشرے میں جذباتی اور کم عقل مسلمانوں کی حرکتوں کی وجہ سے غامدی صاحب کے۔۔صلحِ کل۔۔افکار کو فوراً شرفِ قبولیت حاصل ہوتا ہے۔مسلم معاشرے میں جدید تعلیم یافتہ عوام کچھ کرنا نہیں چاہتے‘ یا انکی ذہنی نشو نما ایسی ہوئی ہے وہ اسلام کا نظریاتی کردار نہیں سمجھتے‘اسی لئے یہ افکار مقبول ہو رہے ہیں۔غامدی صاحب کے نظریات فقہی و علمی اعتبار سے کیا ہیں یہ تو الگ بحث ہے البتہ کچھ طبقات کی جانب سے انکی مخالفت کی وجہ صرف انکی بڑھتی شہرت یا انکی مولانا مودودی سے نظریاتی بغاوت‘ جماعت اسلامی کا چھوڑ نا یا انقلاب بزور بندوق کی مخالفت ہے‘ یہ بجائے خود ایک غلط سوچ ہے!

مولانا وحید الدین خان مرحوم یا جاوید احمد غامدی صاحب کے اسلامی نظریات سر آنکھوں پر …… لیکن اگر اسلام کو اقتدار حاصل نہ ہو تو اسلام کا بہت بڑا عملی حصہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے مثلا اسلامی حکومت‘سودی معیشت‘ سزاوؤں کا نفاذ‘ انسانی حقوق کا تحفظ۔غامدی صاحب اسلامی حکومت کے قیام کے قائل نہیں لیکن انکے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں مسلم معاشرے میں قرآن پاک کے اجتماعی احکام کیسے نافذ ہونگے!بات صرف اتنی ہے اسلام دبنے والا دین نہیں‘ وہ اقتدار بھی چاہتا ہے اور حکومت بھی مگر ملوکیت نہیں جوابدہی کے ساتھ۔ اب یہ اقتدار ملے کیسے اسی پر سب کا اختلاف ہے۔اخوان المسلمون سے لیکر طالبان تک‘ مولانا محمود الحسن وقائد اعظم سے لیکر سید مودودی تک سب اسکے متلاشی تھے لیکن غامدی صاحب نے خود ہی اپنے آپ کو سالکین کی اس صف سے علیحدہ کر لیا ہے!