Sunday, July 26, 2020

بقول ابن انشا۔۔۔بارے کچھ بیان یارِ من تُرکی کا!
ڈاکٹر نادیہ خان
بحیثیت وزیراعظم۔۔۔۔ اردگان کی کارکردگی لائق تحسین تھی مگر صدر بنتے ہی ان پر ہوس اقتدار غالب آگئی۔اب ہر اعشاریہ۔۔معیشت‘ حقوق انسانی‘ مذہبی اصلاحات۔۔ انکی بربادی کی کہانی سنا رہا ہے۔


کون تُرک فوج کا حامی ہے مگر جمہوری حکمران کو بھی ۔۔۔۔کچھ جمہوری ہونا چاہیے۔مخالفین کو کُچلنا اسلام نہیں! 
جو فتح اللہ گولن ۔۔۔۔کبھی ساتھی تھا اب غدار دہشت گرد ٹھہرا۔۔کیوں؟   ترکی کی پاکستان سے محبت صرف اس وجہ سے ہے ہم بھی گولن کے مخالف ہیں ورنہ اردگان بھی کسی محمد بن سلمان سے کم نہیں۔ باقی عوام کے مذہبی جذبات کو استعمال کرنا۔۔۔ہر مسلم حکمراں کی صفت ہے جنرل ضیاءہوں یا اردگان و عمران خان!


عمران خان سے کوئی ہمدردی نہیں لیکن ہمارے مذہبی طبقے بالخصوص ایک جماعت کے کارکنان۔۔ کی منافقت دیکھیں عمران خان قرآن کی آیت پڑھے تو مذاق اڑانا ۔۔اردگان پڑھے تو سبحان اللہ۔یہ ہے وہ قصباتی مولوی کی سوچ جس کے سب سے بڑے مخالف اسی جماعت کے بانی تھے مگر اب انکے کارکن اسی راہ پر!