Monday, April 12, 2021

فحاشی کابھوت۔بوتل میں واپس کیسے جائے!

تحریر: ڈاکٹر نادیہ خان....................   ترجمہ: سید وقاص احمد

وزیراعظم عمران خان نے ملک سے فحاشی دور کرنے کیلئے کچھ اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے۔انکے اقدامات کے کیا اثرات ہونگے وہ تو خیر کچھ دیر بعد ظاہر ہونگے مگرکچھ مذہبی طبقات‘ صحافیوں اور دانشوروں نے ان اقدامات کی حمایت میں زمین آسمان ایک کرنا شروع کردیا ہے۔ان طبقات کا کہنا ہے سیاسی اختلافات کو بھلا کر ہمیں وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے‘  کیونکہ یہی خدمتِ اسلام اور ملک میں اسلامی کلچر کے احیاء کی بنیاد بن سکتا ہے۔سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں ملک میں فحاشی کو کیونکر فروغ حاصل ہوا اور اب اسکو ختم کرنے کیلئے کیا کیا جاسکتا ہے۔

آپ مانیں یا نہ مانیں‘ یہ بات واضح ہے۔۔فحاشی کا بھوت کسی بھی معاشرے میں جب بوتل سے باہر نکل آئے تو آسانی سے واپس نہیں جاتا۔موجودہ دور میں کون لوگ ہیں جو اِسے پاکستان میں بڑھاوا دے رہے ہیں‘ اس باب میں کسی ایک طبقے کو الزام دینا  نا انصافی ہو گی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے……فلم انڈسٹری یاشو بز سے وابستہ افراد ملک میں فحاشی کے ذمہ دارہیں‘ کچھ میڈیا ہاؤسز یا ایڈورٹائزنگ ایجنسیز پر الزام دھرتے ہیں۔یہ ادھورا سچ اور نامکمل تجزیہ ہے۔پہلے یہ دیکھ لیں‘ ہم اس حال میں۔۔۔جسے مذہبی طبقات فحاشی کی انتہا قرار دے رہے ہیں۔۔۔کیسے پہنچے!

قیام پاکستان کے وقت ملک میں شراب خانے اور نائٹ کلب موجود تھے۔ بازار حسن بھی آب و تاب سے چلتے تھے‘ اخبارات میں وہ تصاویر شائع ہوتی تھیں جنکا آج دیکھنا محال ہے اور سینماگھروں میں فحش فلموں کی نمائش ہوتی تھی۔ اگر یہ سماجی برائیاں فحاشی کے ضمن میں آتی ہیں تو اس دور (77-1947ء) میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فحاشی عروج پر تھی اور اسلام کا یہ قلعہ…… فحاشی کی انتہا پر تھا۔پچیس تیس سال کسی حکومت‘ کسی عالم‘کسی مفتی‘ کسی داعی دین‘ کسی سماج سدھارنے والے نے۔۔۔ اس باب میں نہیں سوچا۔

سب سے پہلے جنرل ضیاء کے مارشل لاء میں اس طرف توجہ کی گئی۔اس مسئلہ کا حل یہ نکالا گیا……فحاشی‘ بے پردگی‘سینما کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔فحاشی کے بڑھتے طوفان کے آگے بند باندھنا تو اچھی سوچ تھی مگرقصباتی طرزکی مولویانہ پلاننگ نے اسکا بیڑا غرق کردیا‘ مثلاً ٹی وی دیکھنا حرام ہے‘ سینما گھر منحوسیت کے اڈے ہیں انہیں کسی طرح گرا دو۔اسکے بعد جو طریقہ اختیار کیا گیا اس سے ثابت ہوا اس وقت کے حکمرانوں کی نیت میں فتور تھا۔وہ عوام کو ان باتوں میں لگا کر انکی توجہ اصل مسائل (عدلِ اجتماعی کی کمی‘ حکومت میں عوام کی شمولیت)سے ہٹانا اور اپنی حکومت کو……من پسند علماء و مشائخ کی مدد سے طول دینا چاہتے تھے۔

کرپٹ بیوروکریسی‘ پولیس اور فدوی قسم کے پارلیمنٹ ممبران کی قانون سازی سے۔۔۔ شراب چھپ چھپا کر نوش کی جانے لگی‘ نائٹ کلبوں والا کام اپنے فارم ہاؤسز پر کیا جانے لگا اور ہندی فلموں کو ملک میں روشناس کروانے کا اہتمام ہوا۔ہمارا حال یہ ہے۔۔۔جو شخص اس ہندی فلمی کلچر کو بذریعہ وی سی آر ہمارے گھروں میں لایا اور گھرگھر مجرا کروانے لگا اسے ہم…… امیرالمومنین کہتے ہیں۔اسکی حماقتوں ناجائز حکمرانی کے طول دینے کو ……جہاد اور پاکستان کا اسلامی عہد سمجھتے ہیں۔ہمیں جنرل ضیاء نے افغان جہاد کے نام پرڈسا پھر جنرل مشرف نے کارگل میں حافظ سعید کے سینکڑوں کارکن ……جہادِ کشمیر کے نام پر مروائے اور اب ہم کوشش کر رہے ہیں جنرل پاشا کے تیار کردہ عمران خان کی نام نہاد۔۔ اسلامی منافقت کا سانپ ہمیں پھر ڈس لے۔خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا سوال یہی ہے……ہم ایک سوراخ سے کتنی بار…… ڈسیں جائیں گے!

کہا جاتا ہے۔۔۔جدیدپاکستانی ڈرامے فحاشی کو فروغ دے رہے ہیں۔بہوکا سسر کے ساتھ چکر‘ ساس کا داماد کو للچائی نظروں سے دکھایا جانا‘ یا بہنوئی کا سالی سے الٹ پھیرو غیرہ…………ایسے ڈرامے ملک میں فحاشی کا سبب بن رہے ہیں۔اس پر صرف اتنا کہا جا سکتا ہے۔۔چند میڈیا ہاؤسز‘ شو بز کی قلیل تعداد اورکچھ فحش لکھاری۔۔۔انہیں مال بنانا مقصو دہے اس لئے وہ اس طرح کے دُکھتے سماجی مسائل اٹھاتے ہیں تاکہ انکے ڈراموں فلموں کی ریٹنگ بڑھ جائے اور اشہارات کی ضمن میں انہیں تگڑا اسپانسر یا پروڈیوسر مل جائے۔باقی عوام کی حالت وہی ہے۔۔۔۔انہیں حرص‘ ناجائز مال بنانے کے دھندوں یا مہنگائی کے پھندوں میں الجھا دیا گیا ہے!  دل پر ہاتھ رکھکر بتائیں مفتی قوی‘ عامر لیاقت حسین یا خلیل الرحمن قمر جیسے لوگ ہمارے کلچر کی نمائندگی کے قابل ہیں۔ نہیں لیکن انکے ہاتھ میں قلم یا مائیک آگیا ہے اور یہ ……فحاشی کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں مگر ساتھ ہی مذہب کے ٹھیکدار بھی بنے ہوئے ہیں‘ اور مخالفین کو لبرل سیکیولر ہونے کے طعنے بھی دیتے ہیں!

کہا جاتا ہے۔۔۔ملک میں فحاشی کو روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے ……سخت ترین ’اسلامی‘ سزائیں ملک میں فی الفور نافذ کی جائیں۔اب ان جذباتی بھائیوں کو کون سمجھائے۔۔۔آپکا اسلام بغدادی قائدے سے آگے نہیں بڑھا‘ کون کہتا ہے اسلام سخت سزائیں دیتا ہے۔خوں بہا کا تصور‘ لواحقین کا مجرم کو معاف کردینے کا اختیار وغیرہ…… اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے‘ اسلام سزا سے زیادہ‘ مجرموں کو دوبارہ سے اچھا انسان بنانے کا تصور پیش کرتا ہے۔ مثلاً سابق وزیر اعلی خیبر بختون خواہ اور دینی عالم مفتی محمودؒ کہتے تھے……چار(بالغ مرد) گواہ ہونا جنھوں نے زنا ہوتے آنکھ سے دیکھا ہو‘ ممکن نہیں۔جو اگر دیکھے وہ باقی تین کو پکڑ کر لائے گا تب تک مجرم بھاگ چکا ہوگا۔ڈر یا ڈنڈے سے فحاشی نہیں رکتی‘الٹا بڑھ جاتی ہے۔غور سے دیکھیں تو زنا بالجبر کے مقدمات میں پاکستانی قانون میں ڈی این اے (DNA)کو قابل قبول شہادت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس پر اپنی یہی رائے دے چکی ہے کہ ڈی این اے قابل قبول نہیں۔ اس باب میں اتنی بحث ہو چکی ہے کہ صفحات کے صفحات بھرے جا سکتے ہیں۔ زنا بالجبر کے جن مجرموں کو سزا دی جاتی ہے وہ ٹھیٹ انگریزی قانون ہے جو واقعاتی شہادت پر حرکت میں آتا ہے‘ پولیس اسی بنیاد پر ملزم کا چالان عدالت میں جمع کرواتی ہے‘ گواہ پیش کرتی ہے سزا دلواتی ہے۔ٹھنڈے دل سے سوچنے کی بات یہ ہے ان سزاؤں کو کیسے…… اسلامی سزاقرار دیا جاسکتا ہے۔

کچھ لوگوں ……بشمول وزیراعظم عمران خان۔۔کا خیال ہے…… بے پردگی سے زنا بالجبر کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے جن چھوٹے معصوم بچوں بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر کیا جاتا ہے وہ تو پردے کی پابندیوں سے آزاد ہوتے ہیں‘ چار پانچ سال کے بچوں پر پردہ کے اسلامی احکامات ہی لاگو نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے وہ اپنی کمزوری و معصومیت کے سبب سوفٹ ٹارگٹ ہوتے ہیں اور ان جنسی جنونیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں‘ ان جنونیوں کا خمار تو کسی اور وجہ سے ہوتا ہے‘ اسکا پتہ لگائیں۔یقیناً اسکا تعلق پردے سے نہیں ہو گا۔سچ تو یہ ہے مخرب اخلاق بلیو فلموں کی باآسانی دستیابی‘ انٹرنیٹ پر موجود گندا مواد جو ہر موبائل فون سے دیکھا جا سکتا ہے پھر معاشرے میں شادی کے لئے کثیر سرمائے کی ضرورت  اور مشکل رسمیں وغیرہ نے۔۔۔جائز طریقے سے اس ضرورت کو پورا کرنے کے تمام راستے بند کردیے ہیں۔لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے بعض جنسی جنون کے مجرم شادی شدہ بھی ہوتے ہیں اور انکا ٹارگٹ صرف بچے ہوتے ہیں۔ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے!

کچھ بغدادی قائدہ پڑھنے والوں کا خیال ہے…… اگر جنسی جنونیوں کے عضوِ تناسل کاٹ دیے جائیں تو اسلام فتح مند ہو گا‘ فحاشی کم ہو جائیگی اور ملک میں زنا بالجبر کے واقعات کم ہو جائیں گے۔سماجی سائنس پر تھوڑی سی بھی نگاہ رکھنے والے اور پاکستان کے کلچر سے واقف کہہ سکتے ہیں۔۔جناب اگر آپ جنسی جنونیوں کے عضو کاٹ کرسپریم کورٹ بنی گالہ یا وزیراعظم ہاؤس پر بھی لٹکا دیں تو جنسی جنون کم نہیں ہو گا۔کیونکہ جنسی قوت ایک فطر ی شے ہے‘ جسے خود اللہ تعالی نے انسان کو ودیعت کیا ہے‘  اسے بالکل ختم کرنا اسلام کا مقصود نہیں بلکہ مذہب اسے اخلاقی  و قانونی دائرے میں لانا چاہتا ہے اور سزائے موت۔۔کبھی بھی اسلام میں پسندیدہ عمل نہیں رہا۔اسلمی سزاؤں کی یہ تشریح اور انکا نفاذ بجائے خود قابل اعتراض ہے۔ موجودہ حالات میں القائدہ‘ طالبان اور داعش جیسی تنظیموں نے…… اسلام کو اپنی احمقانہ اسلامی تشریح سے اس قدر بدنام کر دیا ہے‘ دنیا سمجھتی ہے مسلمان کا مطلب ……دہشت گردیا چار بیویوں کے ساتھ بیک وقت سیکس کرنے والے کا نام ہے۔عمران خان اس’نورانی فہرست‘ میں اپنا جھنڈا…… جنسی جنونیوں کے عضوِ تناسل کاٹ کر بلند کرنا چاہتے ہیں۔اس باب میں سخت سزاؤں کا یہی نتیجہ نکلے گا‘  غیر مسلموں اور خاص کر کالج یونی ورسٹی کے مسلم طلباء کی اسلام سے بدگمانی مزید بڑھ جائیگی۔

ایک بات ذہن میں رکھیں۔۔اسلامی سزائیں‘ ذہنی طور پر تیار معاشرے کیلئے ہیں کسی جاہل معاشرے کیلئے نہیں۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی شراب کے ضمن میں موجود حدیث کو فحاشی کے باب میں پڑھ لیں اور اسی سے استنباط کر لیں کہ کیسے فحاشی کو روکا جائے۔اس ملک میں اسلامی سزاؤں کا نفاذ(بغیر کسی ذہنی دعوت تربیت  کے) مزید انتشار کا باعث ہو گا۔مڈل کلاس اگر اسلام سے بدظن ہو گئی تو ……اللہ کی پناہ‘ یہ ملک تھائی لینڈ اسپین یا لاطینی امریکہ بن جائیگا۔

الحمد للہ۔۔ہماری مڈل کلاس پھر بھی اور ابھی بھی…… اس فحاشی سے دور ہے‘  اسکا شکر ادا کریں اورہر وہ عورت جو برقع نہیں اُوڑھتی اسے طوائف اور فحاشی پھیلانے والی بدکردار عورت سمجھنا ……نری جہالت ہے۔فحاشی کے ضمن میں ہمارا اصل مسئلہ…… ہندی فلموں کا تُند و تیز کلچرہے جسکا علاج ہمارے علماء یا کسی اور نے تجویز ہی نہیں کیا۔علماء کرام نے فلم و ٹی وی کو حرام قرار دیکر سمجھا انکی ذمہ داری ختم ہو گئی مگر صرف فتوی دینے سے جاہلی معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی۔ایک طویل عرصے تک (75-1950ء)ہمارے تمام ہی فرقوں کے جیّد علما میں یہ بحث چھڑی رہی۔۔۔ٹی وی (کے ریکارڈڈ پروگرام)دیکھنا حرام ہے یا اسکی لائیو ٹرانسمیشن حلال ہے؟وی سی آر والی ٹیپ کیا حلال ہے؟  بلکہ بہت سے کٹر مذہبی گھرانوں میں آج بھی ٹی وی رکھنا یا دیکھنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔

یہ ایک انتہا تھی دوسری طرف جب ملک میں فحش فلمیں سینما گھروں کی زینت بنتی تھیں‘ اس وقت پاکستانی فلم انڈسٹر ی میں بننے والی اکثر فلمیں‘ زبان‘ مکالمہ‘ ادب‘ اور پیغام کے اعتبار سے مثالی تھیں۔اس دور میں ہیرو ہیروئن سے تین فٹ کے فاصلے پر کھڑ ہوا کرتا تھا‘ اور لپٹ چپٹ کے فحش مناظر پاکستانی فلموں میں ناپید تھے۔جب سے ہندی فلموں میں کمرشل ازم نے جگہ پائی‘ عورت کے جسم کا ہر عضو حریص نظروں کے لئے پیش کیا جانے لگا‘ پاکستانی ڈرامہ و فلم بھی اسی ڈگر پر چل پڑے۔یہ ہے ہمارا اصل مسئلہ اور اسکا حل کسی طور پر وہ نہیں جو آج ہمارے جذباتی مذہبی طبقے کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے۔

اور جو لوگ فحاشی پھیلا رہے ہیں وہ کبھی مجاہد ختم نبوت کبھی ناموس رسالت  ﷺ کے پردے کے پیچھے چھپ کر ابنا مال بنانا جاری رکھتے ہیں جیسے ہمارے ڈرامہ لکھاری خلیل الرحمن قمر یا ہمارے موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید۔ مزید لطیفہ یہ کہ عمران خان حکومت فحاشی کو ختم کرنے کی بات کرتی ہے مگر فحاشی پھیلانے والوں کو قرآن پاک کی تلاوت کی جلو میں ملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے بھی نوازتی ہے مثلا مہوش حیات جنھیں عمران خان کی سفارش پر یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔اب آپ خود بتائیں عمران خان کے بیانات پر کیسے اعتبار کیا جائے جب صورتحال یہ ہے اور وہ خود بھی یو ٹرن خان مشہور ہیں!

دنیا اب جیل اور سزا کی طرف نہیں۔۔۔مجرموں کی ذہن سازی و تربیت کی طرف جارہی ہے۔یہی بات اسلام نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کہی تھی مگر ہم میں ایسی کوئی ریاست نہیں تھی جو اس پر عمل کرکے دکھاتی۔ نتیجتاً مسلمانوں کی اکثریت یہی سمجھتی رہی گردن قلم کرنا‘ سنگسار کرنا یا ہاتھ کاٹ دینا ہی اصل اسلام ہے۔ہوتے ہوتے اب اسلام کا تصور یہ ہو گیاہے۔۔ایسا مذہب جو لوگوں کو ڈرائے دھمکائے‘ ترک کرنے پر واجب القتل‘ یا کچھ مقدس ہستیوں کے علمی و سیاسی فیصلوں پر تنقیدی نظر ڈالنے کو گستاخ قرار دیکرموت کی سزا دیتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے ہمارے علماء و فضلا دور جدید سے پیدا ہونے والے سوالات اور قرآن و حدیث پر ہونے والے اعتراضات یا خود مسلمانوں کی نئی نسل میں دین و دینی شخصیات سے جو شبہات پیدا ہو گئے ہیں انکا مدلل جواب دینے سے قاصر ہیں اسی لئے ایسے ہر ملزم کا سر کاٹ لینے کو ہی ترجیح دی جارہی ہے۔

قرآن رحمۃ للعلمین کہتا ہے مگرہماری تشریح نے بنا دیا ہے۔۔۔زحمت۔۔بالخصوص پاکستانی غیر مسلموں کیلئے!

اپنے عہد کے سب سے مشہور و معتبر عالم مولانا مودودی پرگمراہی و کفر کے اکثر فتوے۔۔خلافت و ملوکیت۔۔ جیسی کتاب لکھنے پر لگے‘ حالاں کہ اس کتاب میں نہایت دیندارآنہ طریقے سے سلف صالحین کے قائم کردہ معیار کے مطابق کچھ قدیم دینی شخصیات کے فیصلوں پر شائستہ تجزیہ کیا گیا ہے۔برا نہ مانیں‘ دل پر ہاتھ رکھکر بتائیں جتنی کوششیں مفتی منیب الرحمن نے رمضان و عید کاچاند دیکھنے‘ مفتی تقی عثمانی نے مولانا مودودی یا جماعت اسلامی کو گمراہ فرقہ ثابت کرنے اورموجودہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے نواز شریف کو وزارت سے نا اہل کروانے کی کی……کیا اتنی کوششیں ہماری ٹھیٹ مذہبی شخصیات نے عوام کو درپیش کٹھن مسائل کیلئے کی؟  مثلا کبھی آپ نے علماء و مشائخ کو پاکستانی مسنگ پرسن (مغوی جنھیں ملکی ایجنسیوں نے اغواء کر لیا ہے اور کسی عدالت میں پیش نہیں کرتی)یا ان پر ہونے والے مظالم پر بولتے سنا یا کبھی فحاشی ختم کرانے کیلئے  میدان میں نکلتے دیکھا۔افسوس نہیں!  بنی اسرائیل کی طرح مذہبی تقسیم در تقسیم میں مبتلا پاکستانی قوم کا فحاشی کے خلاف کسی متفقہ لائحہ عمل پر راضی ہونا آسمان سے تارے توڑ کر لانا ہے۔جو مفتی تقی عثمانی۔۔سابق امیر جماعت اسلامی منورحسن مرحوم کا جنازہ پڑھانے سے بچتے ہیں آپ کے خیال میں فحاشی کے خلاف کسی متفقہ طریقہ کا پردیگر فرقوں کے ساتھ راضی ہوجائیں گے۔ ہر گز نہیں۔ اس لئے علماء سے خیر کی امید رکھنا بیکار ہے۔اب کون بچائے گا قوم کو؟

فحاشی روکنے کیلئے اسلام کا نظام سمجھیں۔ بالغ ہوتے ہی شادی‘  شادی بھی سادگی سے بغیر فضول اور مہنگی رسموں کے‘پیدا ہونے والی اولاد کی کفالت کی ذمہ داری ریاست کی‘ اگر جنسی قوت بہت زیادہ ہے تو دو یا چار تک شادیاں‘ اگر بادشاہ یا طاقتور ہے تو کنیزوں (خیر‘ آزاد دنیا میں اب یہ رواج نہیں رہا لیکن دیکھنے میں آیا ہے کچھ غریب ممالک کی خواتین اچھے مستقبل کی خاطر میل آرڈر برائڈ Mail-Order-Bride بن جاتی ہیں جو کنیز کی ہی ایک قسم ہے) تک کی اجازت۔۔ مگر ذوّاقات(یعنی ہر روز نئی عورت یا مرد کا ذائقہ چکھنے والوں) پر لعنت بھی۔اب بتائیں۔۔۔ کہاں بچا جنسی جنون؟سوال یہ ہے اس پاکستانی۔۔۔آدھے تیتر باقی بٹیر معاشرے میں یہ سب ہوتا ہے۔ نہیں۔ صورتحال یہ ہے پہلے بیٹا کمائے گامال بنائے گا پھر شادی ہو گی اور18سال سے شادی ہونے تک وہ کیا کریگا‘ اسکا پتہ نہیں۔بیٹی بھی صرف صبر کریگی۔ مناسب رشتہ نہیں ملا تو اللہ اللہ خیر صلی۔مڈل کلاس کی سماجی سوچ کے حوالے سے میری ایک بات بھی غلط ہو تو مجھے سزادیں۔اور سن لیں۔۔اگر کوئی بڑی عمر کا مرد یا عورت شادی کرے‘ ہم اسکا مذاق اڑاتے ہیں‘ ہنستے ہیں‘ عملاً کہتے ہیں۔۔جناب اس عمر میں شادی۔۔اب وہ کیا کرے چوری چھپے تعلقات رکھے‘ مجرا دیکھے یا طوائفوں کے پاس جائے یا فحش فلمیں دیکھے!

فحاشی۔۔۔ وزیراعظم پاکستان کے کسی ایکزیکٹو آرڈر سے ختم نہیں ہو سکتی اس کے لئے ہر فرد اور ہر ادارے کو کردار ادا کرنا پڑیگا۔ مثلاً پیمرا PEMRA))کیا ایمانداری سے مختلف ٹی وی چینلز پر فحش پروگراموں کو روکنے میں کامیاب ہو سکتا ہے؟ کیا پی ٹی اے(PTA) )سچائی اور لگن سے ایسا تیکنیکی نظام بنا سکتا ہے ملک میں استعمال ہونے والے انٹرنیٹ پر ساری فحش سائٹس بلاک ہو جائیں؟کیا ہمارے پورٹس پر پانی کے جہازوں سے آنے والی بلیو فلموں کو کلیئرنس ملنا بند ہو سکے گی؟کیا ہمارے وزراء‘ نئے بیوروکریٹس(اسسٹنٹ کمشنر سب ڈویژنل مجسٹریٹس وغیرہ) اورا شرافیہ کی نوجوان نسل ہر جمعے کی رات کو مجرا سننے کا ناغہ کر سکتی ہے‘ کیا ہمارے میڈیا ہاؤسز مال بنانے کے چکر میں فلمی ستاروں  اور فحش اداکاراؤں سے رمضان ٹرانسمیشن کروانے کے بجائے بلیک آؤٹ کرنا یا کم پیسے کمانا پسند کرینگے‘ کیا  ہمارے طاقتور ادارے اپنی پارٹیوں میں شراب و نغمہ و سرود کو ترک کر سکیں گے‘ کیا ہماری عدلیہ ایمان داری سے طاقتوروں پر جو فحاشی کے سرپرست بنے ہیں انکے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے؟ کیا ہماری ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں بات بلابات اشتہاروں میں عورت کا استعمال کم کر سکتی ہیں؟ کیا عوام نت نئے فحش لباسوں کی خریداری کم کر سکتے ہیں؟ان سب سوالات کا جواب۔۔نفی۔۔میں ہے۔

 اسلئے ہم آئندہ مزیدکئی دھائیوں تک…… فحاشی میں عروج حاصل کرینگے۔العیاذ باللہ