Tuesday, June 23, 2020


رسول اللہ ﷺ کے اسمِ مبارک کے ساتھ خاتم النبیین  لازمی لکھا جائے۔۔۔قومی اسمبلی قرارداد
ڈاکٹر نادیہ خان
آج بروز 23 جون 2020 قومی اسمبلی نے متفقہ قرار داد ۔۔۔پاس کی ہے جس کے مطابق تمام نصابی کتب کو پابند کیا گیا ہے جہاں کہیں بھی محمد رسول اللہ ﷺ لکھا ہو وہاں لفظ.... خاتم النبیین.... ضرور لکھا جائے۔

بظاہر یہ بہت اچھی قرارداد لگتی ہے‘ اللہ کے آخری رسول ﷺ سے محبت عین ایمان ہے اور آپ ﷺکی ختم نبوت کا برملا اظہار بہت ضروری بھی ہے لیکن سیاستدانوں کی جانب سے ایسی قراردادیں.... کچھ مزید تفصیل چاہتی ہیں کیونکہ مذہب کو سیاست میں استعمال کرنے کی ہماری تاریخ رہی ہے۔محترمہ فاطمہ جناح کی بطور صدارتی امیدواری ہو یا عورت کو ووٹ دینے کا حق۔۔۔ان سب سیاسی معاملات میں فتاوی کا استعمال ....عموماًسیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے کیا گیا تھا۔اندازہ کریں ‘ اللہ کے آخیری رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق.... ناچ گانا فحش ڈانس اور گندی فلمیں۔۔۔سب اسلام میں ممنوع ہیں‘ کیا آپ نے پاکستانی پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کو کبھی اس کے خلاف آواز اٹھاتے یا قومی اسمبلی میں کوئی مذمتی قرارداد پیش کرتے دیکھا ہے۔ نہیں۔
لیکن کاسمیٹک اقدامات سے عوام کو مذہب کے نام پر بیوقوف بنانا اور انکے حساس نظریات کو کیش کرکے اپنی سیاسی دکان چمکانا.... پاکستانی لیڈران کا پرانا وطیرہ ہے۔اس باب میں جنرل ضیاءکا عہدِ نامسعود اسکی کھلی مثال ہے۔صلاة کمیٹیوں کے قیام سے لیکر بینکوں کے پرافٹ و لاس (PLS)والے (درحقیقت سودی)کھاتے یا سینما گھروں کی بندش مگر ٹی وی ‘وی سی آر کی کھلی درآمداور بھارتی یا فحش فلموں کا کھلے بندوں کاروبار.... جس کے سبب ہر گھر سینما گھر بن گیا‘ ہر گھر میں مجرا ہونے لگا.... چند مثالیں اور زمینی حقیقتیں بھی ہیں۔آج بھی کچھ ذہن ایسے ہی اقدامات سے اپنی سیاسی دکان چمکانے کی کوششیں کرتے ہیں اور اس ذہنیت کی مخالفت کو۔۔۔لبرل سیکیولر ایجنڈا کہہ کر جہنم کی وعیدیں سناتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی.... علی محمد خان کی جانب سے پیش کی جانے والی یہ قرارداد....ہر نصابی اور درسی کتاب میں رسول اللہ ﷺ کے نام مبارک کے ساتھ....لفظ خاتم النبیین....ضرور لکھا جائے گا۔ پہلے اسکا پس منظر دیکھنے اور اس وقت اسکی کیا ضرورت ہے‘ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے‘ پوچھیں.... یہ تو نہایت متبرک اور مقدس کا م ہے اس پر تنقیدکیوں........؟ استغفر اللہ۔ اسکا جواب بڑا سیدھا ہے‘ آج ڈیڑھ ہزار سالوں میں سینکڑوں نیک و دیندار حکمراں گزرے کسی نے یہ کرنے کا نہ سوچا‘ نہ کیا ....تو آج اسکی کیا ضرورت آ پڑی ہے۔الحمد للہ ملک کی اکثریت مسلمان ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا آخری نبی مانتی ہے اور آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی (کسی بھی حالت میں) نبوت کی منکر ہے۔ اس واضح عقیدے کے بعد ایسی قراردادوں کی کیا ضرورت ہے!
ہمارے مذہبی مسائل نہایت حساس حیثیت اختیار کر چکے ہیں‘ اس قراردادکے خلاف کچھ لکھنے پر یہی کہا جائے گا.... لبرل حلقوں کو اللہ کے رسول ﷺسے محبت نہیں‘ اسی لئے اس قرارداد کی مخالفت کی جا رہی ہے یا یہ کہ قرارداد کے مخالفین.... قادیانی ہیں یا انکے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں وغیرہ ۔نہیں ایسا نہیں ہے کم از کم اتنا ضرور پوچھنا چاہیے ....آخر اسکی کیا ضرورت آ پڑی ہے۔ جو کام نہ خلفاءراشدین نے کیا ‘ نہ ہی بعد کے دیندار حکمرانوں نے کیا.... آخر کیا وجہ ہے اب اسے دین کا تقاضہ بنایا جا رہا ہے! یہ تو بالکل ویسی ہی بات ہے ....ہر اذان کی ابتداءمیں درود پڑھنے کو واجب بنایا جائے اور اگر کوئی اس پر اعتراض کرے تو اسے کافر اور جہنمی ہونے کی بشارتیں دی جائیں۔آئیں اس قرارداد کا پس منظر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 پہلی بات ۔۔۔سچ تو یہ ہے اس قسم کی قراردادیں اور انکاروئے سخن۔۔صرف قادیانی طبقے کی جانب ہوتا ہے‘ کسی طرح اس اقلیت کو دبایا جائے اور ان پرسر زمینِ پاکستان تنگ کی جائے۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے‘ قادیانی خود اللہ کے رسول پر ایمان لاتے ہیں‘ کہتے وہ بھی انہیں آخری رسول ہیں لیکن اس میں اتنا شوشہ لگا دیتے ہیں۔۔مرزا غلام احمد ظلی نبی ہیں۔ظاہر ہے یہی گمراہی کی بنیاد ہے لیکن اس تناظر میں رسول اللہ ﷺ کے نام مبارک کے ساتھ....آپ خاتم النبیین.... لکھیں یا نہ لکھیں ‘ اس سے قادیانیوں کو کیا فرق پڑیگا یا انکے اور مسلمانوں کے درمیان جو لکیر ہے اس میں کیا نمایاں کیفیت اُجاگرہو گی....کچھ نہیں۔الٹا محسوس یہ ہوتا ہے۔۔ایک بڑی اکثریت ....چھوٹی سی اقلیت سے خوفزدہ ہو کر ایسے اقدامات کرتی ہے یا پھر سیاسی فوائد کے لئے ایسے کاسمیٹک اقدامات کا سہارا لیا جاتا ہے تاکہ ووٹ بینک برقرار رہے‘ ووٹر اصل کارکردگی کا نہ پوچھیں۔
دوسری ۔۔۔اب یہ دیکھ لیں آج ایسے وقت میں جب قوم پر کرونا کی آفت آئی ہوئی ہے ا س ماحول میں اسمبلی کے مختصر دورانیہ میں کرونا کے علاج کے لئے پلازمہ پر قانون سازی کرنے تاکہ کم سے کم لوٹ کھسوٹ ہو سکے یا اس باب میں آئی ہوئی غیر ملکی امداد کا آڈٹ کروانے یا کیسے اس وباءاور معاشی بحران سے نکلنے کے طریقہ کار پر کوئی حل نکالنے کے بجائے قوم کے منتخب نمائندوں کی سوچ اورترجیحات کس سمت میں ہیں!
تیسری ۔۔۔ہمارے ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں ڈرتی ہیں اگر اس ماحول میں ایسے کسی بل یا قرارداد کو مسترد کیا۔۔۔تو لوگوں کو انکے خلاف مشتعل کروادیا جائے گا‘ انکے ایمان پر بات آنے لگے گی‘ کہا جائے گا۔۔۔یہ قادیانی یا اسکے سپورٹر ہیں‘ اسی لئے اس بل کا مخالف ہے۔ ہمارے مذہبی طبقے نے ایک اشتعال انگیز ماحول (سلطان جائر قسم کا معاشرہ ) بنا دیا ہے‘ ہر بات ختم نبوت کے پیرائے میں کی جاتی ہے اور اس تشریح کی تھوڑی سی بھی مخالفت پر گردن کاٹنے کو.... اسلام سمجھا جاتا ہے۔درحقیقت ایسے ماحول کا پیدا کرنا....یہ سب کچھ ایک فرقے نے اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے کیا ہے اور حبّ رسول ﷺ کو اپنے مسلکی مقاصد میں استعمال کیا جاتا ہے مگر جذباتی مسلمان اس کو سمجھ نہیں پاتے اورایسے کاسمیٹک کاموں کو کار خیر سمجھ کر حصہ ڈالنا شروع ہو جاتے ہیں۔
چوتھی ۔۔۔یہ بات صرف نصابی کتب تک نہیں رہے گی بلکہ اسکا دائرہ کار بڑھے گا‘ نئی کتب لکھوانی پڑیں گی یا نئی چھپائی ہو گی جنکا خریدنا لازم اور غریب والدین پر اضافی بار ہو گا۔کچھ غریب والدین پرانی کتب سے کام چلا لیتے ہیں‘ پارلیمنٹ میں بیٹھے.... ”مجاہدین“ کو کیا پتہ مہنگائی اور غربت کس چڑیا کا نام ہے۔ایک اور بات.... فرض کریں (جو عین ممکن ہے) قادیانی بھی اپنے لٹریچر میں محمد ﷺ کے نام مبارک کے ساتھ اہتمام سے لفظ.... خاتم النبیین.... لکھنا شروع کردیں تو بل کے مقاصد دھرے رہ جائیں گے البتہ پاکستانی پارلیمنٹ بدنام ہو گی کہ وہ ایک خاص اقلیت کو سامنے رکھکر قراردادیں پاس کرتے یا قانون سازی کرتے ہیں۔
پانچویں بات۔۔۔پارلیمنٹ میں کوئی قرارداد یا قانون سازی بھی کسی طبقے کو سامنے رکھ کر نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارے ملک میں کئی فرقے ہیں جو ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں۔ مثلاً سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی(جنھیں تقریباً سب دیوبندی علماءکی خاموش حمایت حاصل رہتی ہے.... شیعہ مکتبہ فکر کو کافر سمجھتے ہیں) چاہتے ہیںشیعوں کے خلاف بھی ایسی ہی قراردادیں پیش ہوں منظور ہوں۔ بریلویوں کا ایک فرقہ جماعت اسلامی کے سخت خلاف ہے‘ وہ چاہیں گے جماعت کے نظریات کے خلاف ایسی قراردادیں پیش کی جائیں مثلاً مولانا مودودیؒ کی ....تفہیم القرآن متنازعہ تفسیر ہے یا کتاب.... خلافت و ملوکیت کو ملک میںممنوع کیا جائے کیونکہ اس سے صحابہ ؓ کی شان میں گستاخی کا پہلو نکلتا ہے۔خود مسلمانوں میں غالی عقیدت مندوں کی ایک فوج پیدا ہو گئی ہے۔کوئی ڈیڑھ سو سال پہلے کہہ سکتا تھا .... مسلمانوںمیں ایسی فکر عام ہو گی جسکو ایک شاعر اس طرح بیان کرتا ہے:
مستوی تھا جو عرش پہ خدا ہو کر
اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر
لیکن یہ سوچ اب ایک حقیقت ہے۔اسی فکر اور ایسی قراردادوں کے ساتھ آئندہ بیس پچیس سالوں میں ایسے جہلا پیدا ہونگے۔۔۔جو قرآن میں بھی ترمیم کی کوششیںکریں گے ‘کہیں گے جہاں جہاں قرآن پاک میں لفظ ....محمد ....آیا ہے جیسے (وما محمد الا رسول....الخ آیت) یا( محمد رسول اللہ والذین معہ....الخ آیت ) اس کے ساتھ لفظ.... خاتم النبیین بھی لکھا جائے۔معاذ اللہ ۔علی ہذا القیاس
 پہلے خلفاءراشدینؓ کے عہد سے دیکھتے ہیں‘ کیا اس دور میں بھی اس قسم کی کوششیں کی جاتی تھیں اورمذہب سے سیاسی فوائد اٹھائے جاتے تھے یا نہیں۔سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں انہیں کئی جھوٹے نبیوں سے عملاً جہاد بالسیف کرنا پڑا لیکن خلیفہ نے ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا کہ حضور ﷺ کے نام مبارک کے ساتھ خاتم النبیین بھی لکھا جائے۔ انہیں جمہور مسلمین کے عقیدے پر اعتماد تھا۔
سیدنا عمر ؓکی خلافت میں ہر شعبے میں اصلاح ہوئی‘ انہوں نے کئی ایسی اصلاحات متعارف کروائیں جو عہدِ رسالت میں موجود نہیں تھیں یا انہیں منظم نہیں کیا گیا تھا مثلاً تراویح کی باجماعت نماز ‘ بچوں کے پیدائش پر حکومتی وظیفے‘ وغیرہ مگر انہوں نے بھی ختم نبوت کے لئے ایسی کسی عمل کا اجراءنہیں کیا۔ الٹا عہد فاروقیؓ میں اس درخت کو بھی کٹوادیا گیا جس سے مسلمان عقیدت کا اظہار کرنے لگے تھے (ذہن میں رکھیں۔۔۔کونسے مسلمان جنکی اکثریت صحابی یا انکی اولادیں تھی) جس کے نیچے بیٹھ کر حضور ﷺ نے بیعت لی تھی۔اس سے پہلے فاروق اعظم ؓ اسلامی تاریخ کے کیلنڈر کے اجراءکے موقع پر ولادت رسول ﷺ کے واقعہ کو بنیاد بنانے کے بجائے.... ہجرت رسول کو اہمیت دے چکے تھے۔
سیدنا عثمان غنی ؓ نے بھی کئی نئی اصلاحات کیں مثلا قرآن پاک کی تدوین اور واحد مصحف پر ملت کو یکجا کرنا ‘جہاد میں بحری بیڑا تیار کرنا‘ مگر انہوں نے بھی ختم نبوت کو ایسا مسئلہ نہیں سمجھا اور نہ ہی اس پر کوئی خاص احکامات دیے۔
 سیدنا علی ؓ کا عہد خلافت بھی مذہب کے نام پر.... کاسمیٹک اقدامات سے خالی ہے حالانکہ انہیں اپنے دور میں ایسے اقدامات کی اشد ضرورت تھی جب مسلمان فرقوں میں بٹ چکے تھے اور انکی ناجائز مخالفت پر کمر بستہ تھے۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا عہد مبارک بھی اصل اسلام کے نفاذ تک محدود ہے۔
مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب ....تنقیحات میں بڑی اچھی بات لکھی ہے۔”ایک غلام جسے آقا نے اپنے باغ کی رکھوالی کے لئے رکھا اگر اپنے کام کے بجائے جھک جھک کر صرف آقا کو سلام کرے اور اپنا اصل کام پورا نہ کرے تو ایسے غلام کو کیا کہیں گے۔ “ علامہ اقبال ؒ نے بھی مذہبی طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے اسی سے ملتی جُلتی (اسلام کا اصل مقصد کیا ہے) بات کہی ہے:
 یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
 یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات
اس طویل گفتگو کا خلاصہ بس اتنا ہے ....رسول اللہ ﷺ کی نیابت یہ ہے آپ حضور ﷺ کے لائے ہوئے دین کو اسکی اصل حالت میں لوگوں تک پہچائیں‘ اس میں کوئی آمیزش نہ کریں اور اس سے سیاسی فوائد اٹھانے سے پرہیز کریں۔اب یہ فیصلہ خود کرلیں‘ ایک ایسی مملکت جہاں اللہ کے آخری رسول محمد ﷺ کے نام کے ساتھ....خاتم النبیین.... لکھنا لازمی کر دیا گیا ہو وہاں:
٭      روز ایک بچہ یا بچی جنسی ہوس کا نشانہ بنتا ہو اور ملک میں فحش فلموں کو روکنے والا کوئی نہ ہو
٭      شراب عام ملتی ہو اور بڑے افسران ‘ جرنیل و بیوروکریٹس و جج و اشرافیہ اعلی درجے کی شراب نوش کرتے ہوں اور اپنے عہدے و مرتبے کے سبب انہیں کوئی پوچھ نہیں سکتا مثلاً جنرل مشرف علی الاعلان شرب نوشی کرتے تھے مگرکسی عالم دین نے انہیں نہیں ٹوکا کیونکر اسلامی جمہوریہ کا سربراہ فاسق و فاجر ہے!
٭      بازار حسن ....قیام پاکستان کے روز اول سے قائم ہوں اور کوئی انکے خلاف آواز نہ اٹھاتا ہو
٭      سود.... معاشرے کے رگ و روپے میں شامل ہو اور کمزور یا غریب گھر بنانے کے لئے جو قرض لیں اسکا تھوڑا سود.... ادا کرتے انکی عمریں گزر جائیں۔۔اس کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہ ہو
٭      کمزور پر حد جاری ہوجائے اور طاقتور کو قانونی موشگافیوں کی وجہ سے بڑے بڑے وکلاءبچا لے جائیں اور انہیں سزا نہ ملے
٭      جہاں ہر صبح اور ہر شام ۔۔رسول اللہ ﷺ کا عملاً.... مذاق اڑایا جائے مثلاً اللہ کے رسول نے ناچ گانے سے منع فرمایا وہاں ہر صبح و ہر شام ٹی وی چینلوں پر موسیقی کی دھما چوکڑی مچی ہو۔۔۔اور انہیں کوئی برا کہنے والا نہ ہو اس پر اعتراض کرنے والے کو احمق جاہل اور دقیانوسی کہا جائے۔
٭      دکھاوا اور منافقت اور ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کا چلن عام ہو....اور کوئی اسکی تطہیر کرنے والا نہ ہو۔بقول عدیم ہاشمی:
زَر کی کشش نے کھینچ لیاسارے شہر کو
بازار چل پڑے ہیں خریدار کی طرف
٭      جہاں طاقتور....کمزور کو کھا جاتا ہو اور حکومت وقت ....کمزور کی داد رسی نہ کر سکے!(یاد کریں حضرت جعفر طیار ؓ نے نجاشی کے دربار میں جاہلیت کی منظر کشی کرتے عہد جاہلیت کی ایک خصوصیت یہی بتائی تھی جو اب اسلامی معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہے)
٭      جس مملکت نے قیام کے وقت اللہ سے وعدہ کیا ہو .... ہم اسے اسلامی و فلاحی ریاست بنائیں گے مگر جہاں مائیں بھوک سے خودکشیاں کریں‘ لاکھوں شہری بھوکے سوئیں اور حکومت کے کان پر جوں نہ رینگے مگر حکومت فخریہ اپنے آپ کو ۔۔ریاست مدینہ۔۔کہلوانا پسند کرے۔
اب آپ خود فیصلہ کریں‘ ایسی مملکت سے.... اللہ کا آخری رسول ۔۔۔اپنے نام کے ساتھ خاتم النبیین لگوانے پر ۔۔۔خوش ہو گا یا ناراض.... یہ خود سمجھ لیں۔ بقول اقبالؒ
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے افرنگی ‘ میرا ایماں ہے زنّاری!

صلی اللہ تعالی علیہ وسلم